تجربے کے دشت سے دل کو گزرنے کے لیے
تجربے کے دشت سے دل کو گزرنے کے لیے
روز اک صورت نئی ہے غور کرنے کے لیے
جب کوئی بنتا ہے لاکھوں ہستیوں کو میٹ کر
صبح تاروں کو دباتی ہے ابھرنے کے لیے
حامل اسرار فطرت ہوں گدا بھی ہوں تو کیا
بات یہ کافی ہے مجھ کو فخر کرنے کے لیے
روح کو چمکا خودی کو توڑ کر زینے بنا
دو یہ تدبیریں ہیں دنیا میں ابھرنے کے لیے
غور سے دیکھا نظام دہر تو ثابت ہوا
آدمی پیدا ہوا ہے کام کرنے کے لیے
صبح اٹھ کر آنسوؤں سے خون کے روتا ہوں میں
دل کے نقشے میں وفا کا رنگ بھرنے کے لیے
گوہر مقصود خود ملتا ہے ہمت شرط ہے
مضطرب رہتا ہے ہر موتی ابھرنے کے لیے
آنکھ شرمائی ہوئی ہے بال پیشانی پہ ہیں
آئینہ خانے میں جاتے ہیں سنورنے کے لیے
کہہ دو دنیا کے حوادث سے نہ چھیڑیں اس طرح
جوشؔ ہم تیار ہی بیٹھے ہیں مرنے کے لیے