صورت سے وہ بیزار ہے معلوم نہیں کیوں
صورت سے وہ بیزار ہے معلوم نہیں کیوں
دل پھر بھی طلب گار ہے معلوم نہیں کیوں
ہر شخص کو بخشی گئی تمییز بد و نیک
ہر شخص زیاں کار ہے معلوم نہیں کیوں
اک چیز کہ سرمایۂ راحت ہے اسے لوگ
کہتے ہیں کہ آزار ہے معلوم نہیں کیوں
پتا بھی اگر ہلتا ہے تو اس کی رضا سے
اور بندہ گنہ گار ہے معلوم نہیں کیوں
دیں دار ہے زاہد کی زباں بھی مرا دل بھی
پھر مفت کی تکرار ہے معلوم نہیں کیوں