سنا کر حال قسمت آزما کر لوٹ آئے ہیں
سنا کر حال قسمت آزما کر لوٹ آئے ہیں انہیں کچھ اور بیگانہ بنا کر لوٹ آئے ہیں پھر اک ٹوٹا ہوا رشتہ پھر اک اجڑی ہوئی دنیا پھر اک دلچسپ افسانہ سنا کر لوٹ آئے ہیں فریب آرزو اب تو نہ دے اے مرگ مایوسی ہم امیدوں کی اک دنیا لٹا کر لوٹ آئے ہیں خدا شاہد ہے اب تو ان سا بھی کوئی نہیں ...