سکھ اسی ایک بات کا ہے مجھے
سکھ اسی ایک بات کا ہے مجھے
میرا باطن ہی آئنا ہے مجھے
ان سے اظہار کی توقع ہے
تیری آنکھوں میں دیکھنا ہے مجھے
آپ کا ہجر آخری دکھ ہے
آپ کا عشق دوسرا ہے مجھے
سانس در سانس کر رہا ہوں ادا
اور یہ زندگی بھی کیا ہے مجھے
مجھ کو آواز اب نہیں درکار
میری خاموشی ہی صدا ہے مجھے
کام دنیا کے کر لیے سارے
محض اب اس کو بھولنا ہے مجھے
ایک مجھ میں ہے مبتلا دنیا
آدمی کتنا سوچتا ہے مجھے
یعنی بینائی تک چلی جائے
یہی رونے کی انتہا ہے مجھے