افسانہ

منقار

بیگم نوری رحمان لباس تبدیل کرکے آئینے کے سامنے آکھڑی ہوئیں۔ ایک نگاہ اپنے سراپے پر ڈالی۔ شیفون کے ہلکے گلابی رنگ کے سوٹ میں ان کا روپ گلاب کے پھول ہی کی طرح نکھر گیا تھا۔ بال سلیقے سے کاندھوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ گہرے براؤن رنگ کے بالوں کے درمیان ان کے سرخ و سپید رخساروں کی شعلگی ...

مزید پڑھیے

مسیحا

(اپنے مرحوم دوست اِبراہیم نذیر کے نام) ٹیلی ویژن سے یومِ آزادی پر وزیرِ اعظم کی تقریر ٹیلی کاسٹ ہورہی تھی۔ تقریر کا ایک ایک لفظ اس کی روح کی گہرائیوں میں اترتا جا رہا تھا۔ بظاہر اس تقریر میں کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ وہ تقریر ایسی ہی تھی جیسی یومِ آزادی اور یومِ جمہوریہ کے موقع ...

مزید پڑھیے

بٹوارا

وہ دو بھائی تھے ایک ہی عورت کی کوکھ سے جنم لینے والے دو حقیقی بھائی۔وہ دونوں اپنی ماں سے یکساں شدّت سے پیارکرتے تھے۔انھیں اپنی ماں کی پاکیزگی اور وسیع المشربی پر بے حد نا زتھا۔ وہ ہمیشہ اس کی عظمت کے گیت گایا کرتے ۔ وہ اپنی ماں کو دنیا کی سب سے زیادہ پاکباز اور نیک خاتون سمجھتے ...

مزید پڑھیے

انجام کار

آج شام کو آفس سے گھر لوٹتے وقت تک بھی میں نہیں سوچ سکتا تھا کہ حالات مجھے اس طرح پیس کر رکھ دیں گے۔ میں چاہتا تو اس سانحے کو ٹال بھی سکتا تھا مگر آدمی کے لیے ایسا کرسکنا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ کچھ باتیں ہمارے چاہنے یا نہ چاہنے کی حدود سے پرے ہوتی ہیں اور شاید ایسے غیر متوقع سانحات ...

مزید پڑھیے

ایک جھوٹی /سچی کہانی

میرے بیٹے نے حسبِ معمول اس رات بھی کہانی کی فرمائش کی۔میں کافی تھکا ہوا تھا۔تِس پر ٹیلی ویژن سے ٹیلی کاسٹ ہوئی خبروں نے دل و دماغ کو اور بھی پژمردہ کردیا۔ لگتا تھا پوری دنیا بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے۔ اک ذرا سا ماچس دکھانے کی دیر ہے، بس۔ کیا انسان دورِ وحشت کی طرف لوٹ رہا ہے؟ دل ...

مزید پڑھیے

ندی

ندی بہت بڑی تھی۔ کسی زمانے میں اس کا پاٹ کافی چوڑا رہا ہوگا۔ مگر اب تو بے چاری سوکھ ساکھ کر اپنے آپ میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔ ایک زمانہ تھا جب اس کے دونوں کناروں پر تاڑ اور ناریل کے آسمان گیر درخت اگے ہوئے تھے جن کے گھنے سائے ندی کے گہرے، شانت اور شفاف پانی میں یوں ایستادہ نظر آتے ...

مزید پڑھیے

سبق

ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا مگر چاروں طرف ملگجا اجالا پھیلنے لگا تھا۔ تمام بھکشو کلندک جھیل میں غسل کرنے کے بعد ’وینووَن‘ لوٹ آئے تھے۔ وینووَن کے چاروں طرف بانسوں کا جنگل تھا۔ بھکشوؤں نے بانسوں کو کاٹ چھانٹ کر چھوٹی چھوٹی کٹیائیں بنالی تھیں۔ ہر کٹیا میں چار چار پانچ پانچ ...

مزید پڑھیے

دی پراڈِگل سَن

’’جاؤ۔۔۔‘‘ حوالدار نے اسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔ وہ چق ہٹا کر اندر داخل ہوا۔ سامنے ایک بڑی سی میز کے پیچھے وہی خونخوار چہرے والا جیلر بیٹھا کوئی فائل الٹ پلٹ رہا تھا، جِسے اس نے بار ہا قیدیوں کے بیرکس کا دورہ کرتے، قیدیوں کو گالیاں دیتے اور کبھی کبھی بے دردی کے ساتھ ان پر لات ...

مزید پڑھیے

حلالہ

پیر خان ظہر کی نماز سے فارغ ہوکر اپنا بڑا سا رومال ہلاتا ہوا حوض کے کنارے بنے چبوترے پر آ بیٹھا۔ دینو (دین محمد) ابھی اندر ہی تھا۔ وہ شاید اپنی آخری دو رکعتیں ادا کر رہا تھا۔ پیر خان نے اپنی ٹوپی نکال کر چبوترے پر رکھدی اور اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا پھر داڑھی میں انگلیوں سے ...

مزید پڑھیے

دہشت

رات اپنی پوری دہشت ناکی کے ساتھ شہر پر چھائی تھی۔ سڑکوں اور گلیوں میں اتنا اندھیرا تھا گویا سارا شہرسیاہ کمبل تانے سو رہا ہو۔ چاروں طرف ایک بھیا نک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سردی کی شدت سے جسم کا خون برف ہوا جا رہا تھا، کہیں بھی کسی قسم کی کوئی آواز نہیں تھی صرف میرے بوٹوں کی کھٹ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 43 سے 233