مسیحا
(اپنے مرحوم دوست اِبراہیم نذیر کے نام)
ٹیلی ویژن سے یومِ آزادی پر وزیرِ اعظم کی تقریر ٹیلی کاسٹ ہورہی تھی۔ تقریر کا ایک ایک لفظ اس کی روح کی گہرائیوں میں اترتا جا رہا تھا۔ بظاہر اس تقریر میں کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ وہ تقریر ایسی ہی تھی جیسی یومِ آزادی اور یومِ جمہوریہ کے موقع پر عموماً وزیرِ اعظم کرتے ہیں۔ جس میں خوش آئند وعدوں کے ساتھ ساتھ قوم کو سخت محنت، نظم و ضبط، نیز آنے والے مصائب کا مقابلہ کرنے اور ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
ویسے وہ تقریر تو بس ایک بہانہ تھی ورنہ وہ ایک عرصے سے محسوس کررہا تھا کہاس کے کاندھے کسی نامعلوم ذمہ داری کے بوجھ سے جُھکے جارہے ہیں اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ اس کے اندر ایک طوفان سا برپا کیے رہتا ہے۔
تقریر سنتے سنتے اس کے لہو میں بجلیاں سی دوڑنے لگیں۔ چہرہ سرخ ہوگیا اور فرطِ جذبات سے اس کا دبلا پتلا لاغر جسم دھیرے دھیرے کانپنے لگا جیسے اسے کسی آسیب نے آدبوچا ہو۔ تقریر کے اختتام پر وزیرِ اعظم کی آواز میں آواز ملا کر اس نے بھی بڑے زور سے ’جے ہند‘ کا نعرہ لگایا۔ اس کی دو برس کی سوتی بچی اس للکار سے جاگ پڑی اور زور زور سے رونے لگی۔ بیوی اس کی بچکانہ حرکت پر بہت خفا ہوئی مگر اس نے زرا پروا نہ کی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی سات کلاس پاس ایک جاہل عورت ہے۔ اسے نہ تو حالات کی سنگینی کا علم ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے مفاد یا نقصان کا احساس ۔ اس کی ساری سرگرمیاں اپنے ڈیڑھ کمرے کے اس چھوٹے سے گھر کی چہار دیواری تک محدود تھیں۔ وہ اخبار پہلے بھی پڑھتا تھا مگر اس دن کے بعد سے وہ اخبار کو ایک ذمہ داری کے احساس کے ساتھ پڑھنے لگا۔ وہ دفتر سے لوٹنے کے بعد کپڑے تبدیل کرکے منہ ہاتھ دھوتا اور ٹی وی پر خبروں کا چینل کھول کر بیٹھ جاتا۔ ایک چینل149 سے خبریں ختم ہوتیں تو دوسرا چینل لگا دیتا اور پورے دھیان سے ایک ایک خبر سنتا۔ بیوی چائے کا پیالہ لیے پاس آکر کھڑی رہتی مگر اس کی محویت میں ذرا فرق نہ آتا۔ بیوی اکتا کر پیالہ اسٹول یا میز پر رکھ دیتی اور بڑبڑاتی ہوئے چلی جاتی۔ اگر خبریں سنتے وقت اس کا بڑا لڑکا کارٹون دیکھنے کے لیے شور مچاتا یا چھوٹی بچی کسی بات پر رونے لگتی تو وہ انہیں بری طرح ڈانٹنے پھٹکارنے لگتا۔ بڑا لڑکا تو سہم کر چپ ہوجاتا۔ مگر چھوٹی اور زور زور سے رونے لگتی۔ اپنے کام سے فارغ ہوکر بیوی ٹی وی پر کوئی سیریل یا فلم دیکھنا چاہتی تو وہ بیوی پر برس پڑتا۔
’’تمہیں خبر بھی ہے دنیا میں کیا ہورہا ہے اور ہماری ذمہ داریاں کس قدر بڑھ گئی ہیں۔ ان دو کوڑی کے سیریلوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ چیزوں کو ذرا گہرائی سے دیکھنے کی عادت ڈالو، سمجھیں!‘‘
بیوی چڑ چاتی۔ تھوڑی دیر تک دونوں میں تو تو میں میں ہوتی، پھر بیوی منہ پر دوپٹا لپیٹے کروٹ بدل کر سو جاتی۔ اور وہ دوبارہ ٹی وی پر نظریں جما کر بیٹھ جاتا۔ ایک دن اس نے ٹی وی پر سنا کہ ’’ضروری اشیاء کی قیمتوں پر قابو پا لیا گیا ہے۔‘‘ وہ اچھل پڑا، اس نے زور سے بیوی کو آواز دی۔ وہ بے چاری کچن سے دوڑتی ہوئی آئی۔ اس کے اس طرح اچانک چلانے سے وہ گھبرا گئی تھی۔
’’کیا ہے جی؟‘‘
’’ارے ابھی ابھی میں نے ٹی وی پر خبر سنی ہے کہ ضروری اشیا کی قیمتوں پر قابو پالیا گیا ہے۔ کل سے اپنی دال سبزی تیل میں نہیں اصلی گھی میں بنا کرے گی۔
اس کے چہرے پر طفلانہ مسرت کے علاوہ ایک مجنونانہ جوش بھی تھا۔ بیوی بے چاری کیا بولتی۔ وہ اس کے تمتمائے ہوئے چہرے کی طرف فقط حیرت اور ترحّم کے ملے جلے جذبے کے ساتھ دیکھتی رہ گئی۔
ایک دن بیوی نے کہا۔’’برسات آرہی ہے، چھت کی مرمت کروالو۔ پچھلی برسات میں دیکھا تھا نا کتنی تکلیف ہوئی تھی۔‘‘
اس نے حقارت سے بیوی کی طرف دیکھا۔ جیسے کہہ رہا ہو، ہو نا آخر گنوار کی گنوار۔ پھر بیوی کو سمجھاتے ہوئے بولا۔
’’صبر سے کام لو ، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اب اس ٹوٹی پھوٹی چھت پر مزید خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔ سرکار ہمیں جلد ہی ڈھنگ کا مکان دینے والی ہے۔‘‘
’’سرکار کہاں سے دے گی؟‘‘ بیوی کا وہی احمقانہ سوال۔
’’ارے کہیں سے بھی دے گی۔ نہیں دے گی تو اسی کو توڑ کر پکا بنا دے گی۔‘‘
’’باپ مریں گے تب بیل بنٹیں گے۔‘‘بیوی نے چڑ کر کہا۔
اچانک اسے بیوی پر بے حد غصہ آگیا۔ آخر اس عورت کو کب عقل آئے گی۔ جب اسے بات کرنا نہیں آتا تو چپ کیوں نہیں رہتی۔ اس نے اسے زور سے ڈانٹا۔
’’جب تمہیں کسی بات کی سمجھ نہیں تو بے کار میں کیوں اپنا سر کھپاتی ہو۔ سرکار کے پاس کیا جادو کی چھڑی ہے کہ گھماتے ہی گھر تیار ہوجائے گا۔ ہر کام کا وقت مقرر ہے اور وہ اپنے وقت پر ہی پورا ہوتا ہے۔ کروڑوں لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا آسان تو نہیں ہے، ہم ہمیشہ یہ کیوں سوچتے ہیں کہ سرکار ہمارے لیے کیا کررہی ہے۔ ہمیں یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ ہم سرکار کے لیے کیا کررہے ہیں۔‘‘
بیوی کو اس کا یہ لیکچر بُرا لگا۔اس نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’’میں تو گنوار ہوں۔ مجھے کچھ بھی نہیں معلوم۔ بھاڑ میں گئی آپ کی سرکار۔ میں اتنا جانتی ہوں کہ برسات سے پہلے چھت بن جانی چاہیے۔ ورنہ مجھے گاؤں لے جاکر چھوڑ دیجئے۔ یہاں ٹپکتی چھت کے نیچے کیچڑ پانی میں، مَیں اپنے بچوں کو بھیگتا، بلکتا نہیں دیکھ سکتی۔‘‘
بیوی تن تناتی ہوئی چلی گئی اور وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا تا رہ گیا۔ایسے موقع پر اس کا بس نہیں چلتا کہ چابک لے اور بیوی کو سُوت کر رکھ دے۔ جہالت کی بھی حد ہوتی ہے۔ اس عورت نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ کبھی مسئلہ کو سمجھ کر نہیں دے گی۔ مگر بیوی ہی کیوں؟ اس کے ارد گرد کتنے لوگ ہیں جو مسائل کو سمجھتے اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں؟ لوگ تو جیسے ایمانداری کا چلن ہی بھول گئے ہیں۔ سمجھانے کی کوشش کرو تو خفا ہوتے ہیں۔ اس دن محلے کے قصائی نے اچانک مٹن پر فی کِلو دس روپئے بڑھا دیے۔ پوچھنے پر کہنے لگا؛
’’گجرات میں زلزلے کی وجہ سے جانور کم آرہے ہیں۔‘‘
اس نے کہا۔’’جانور کم آرہے ہیں تو ایک کِلو کی بجائے آدھا کِلو کردو مگر یہ دام بڑھانے کا کیا مطلب۔۔۔؟‘‘
قصائی نے پہلے تو اسے گھور کر دیکھا۔ پھر بولا؛
’’اے! اِدھر ٹائم کھوٹا نئیں کرنے کا کیا؟ لینا ہو تو لو نئیں تو پھُٹاس کی گولی کھاؤ۔ کیا سمجھے؟‘‘
’’میں اس دھاندلی کے خلاف پولس میں شکایت کروں گا۔‘‘
’’ابے جا، بڑا آیا پولس والا۔ پولس کیا اکھاڑ لے گی میرا۔۔۔؟‘‘
اچانک قصائی بپھر گیا۔ پھر اس نے کسی کو آواز دی۔
’’اے کالیا! دیکھ تو یہ چشمے والے کو کیا منگتائے۔۔۔‘‘
ایک موٹا کالا بھجنگ شخص اس کی طرف بڑھا جس کے دو دانت ڈرائکولا کی طرح باہر نکلے ہوئے تھے۔ آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کالا بھجنگ اس سے کوئی بدتمیزی کرتا وہ وہاں سے چپ چاپ چلا آیا۔ مگر اس نے دل ہی دل میں قصد کرلیا کہ وہ اس قصائی کی کمپلینٹ ضرور کرے گا۔
رفتہ رفتہ لوگ اس سے بدکنے لگے۔ اس کے سارے پرانے دوست اس سے چھوٹ گئے۔ ملنے جلنے والوں نے بھی اس کے گھر آنا جانا ترک کردیا۔ اس کے لیے بھی اب جاہل جٹ اور گنوار لٹھ قسم کے لوگوں سے ملنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ دفتر میں بھی کوئی اس سے بات کرنے کا روادار نہیں تھا۔ کیوں کہ اس نے دفتر میں وقت پر آنا اور مسلسل آٹھ گھنٹے کام کرنا شروع کردیا تھا۔ لوگوں نے اس سے پوچھا ۔آخر وہ وقت کا اتنا پابند کس خوشی میں ہوگیا ہے؟ اس نے موزوں اور مناسب لفظوں میں لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بغیر پابندئ اوقات اور سخت محنت کے نہ ملک ترقی کرسکتا ہے نہ قوم خوش حال ہوسکتی ہے۔ اس کے اس جواب پر وہ سب دیر تک ہنستے اور قہقہے لگاتے رہے تھے۔ ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پچھلے کئی برس سے اس نے اس سے زیادہ دلچسپ لطیفہ نہیں سنا۔
مگر وہ لوگوں کے ایسے پوچ ریمارک سے کب بددل ہونے والا تھا۔ ان سب کے ذہنوں پر تو غفلت کے پردے پڑے ہیں، انہیں بیدار کرنا اور انہیں مسائل کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی ترغیب دلانا اس کا فرض ہے۔
ایک دن دفتر میں کاملے، دیشمکھ اور سیّد بیٹھے حسبِ معمول گپّیں ہانک رہے تھے۔سیّد میز پر پیر رکھے سگریٹ اڑا رہا تھا۔ کامبلے بیٹھا ہتھیلی پر سورتی مسل رہا تھا اور دیشمکھ کسی بات پر بھالو کی طرح اچک اچک کر مسلسل ہنسے جارہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر تک انہیں خاموشی اور ضبط سے دیکھتا رہا۔ جب کافی دیرگزر جانے کے بعد بھی ان کے ہنسی ٹھٹھے میں کوئی فرق نہیں آیا تو وہ اپنی کرسی سے اٹھا اور ان کے قریب پہنچ گیا۔ سیّد نے اسے دیکھتے ہی نعرہ لگایا۔’’ہیلو ہریش! آؤ تم بھی دم لگاؤ۔‘‘ سید نے سگریٹ کا پیکٹ اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے اپنے چہرے کو کرخت بناتے ہوئے تیز لہجے میں کہا۔
’’ مسٹر سیّد! تمہیں معلوم ہے میں ڈیوٹی ٹائم میں سگریٹ نہیں پیتا۔‘‘
’’اور جو پی ہی لو تو کون سی آفت آجائے گی یار۔۔۔‘‘
’’پی لو۔۔۔ ہم صاحب سے نہیں کہیں گے۔‘‘
دیشمکھ نے لقمہ دیا۔ اس پر تینوں نے زور دار قہقہہ لگایا اور اس کی جانب تمسخرانہ انداز میں دیکھتے ہوئے دیر تک ہوہو کرکے ہنستے رہے۔
اس نے ان کے تمسخر کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’آپ لوگ اپنے فرض سے غفلت برت کر ملک اور قوم کا نقصان کررہے ہیں۔‘‘
’’اے۔اے۔ یہ کونسی بھاشا بول رہے ہو تم؟‘‘
کاملے اپنی کرسی سے اچھلتا ہوا بولا۔’’ساری یار!‘‘ دیشمکھ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیے۔ ’’ میں معافی چاہتا ہوں۔ اس لیے کہ میں آج تک تمہیں ہاف کریک سمجھتا تھا مگر تم تو پورے کریک نکلے۔۔۔ یُو آر ٹوٹلی میڈ۔‘‘ ایک چھت شگاف قہقہہ۔
وہ پھر ضبط کرگیا۔ ضبط کرتے کرتے اسے ضبط کرنے کی خاصی مشق ہوگئی تھی۔ سیّد نے انتہائی سنجیدہ صورت بنا کر اس سے پوچھا۔’’ یار! یہ تمہیں آج کل ہوکیا گیا ہے۔ جب دیکھو کام، ڈسپلن، فرض، ملک، قوم۔۔۔ ان فضول کی باتوں سے تمہیں ملتا کیا ہے؟‘‘
اب اس کے لیے برداشت کرنا مشکل ہوگیا۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ آنکھیں اپنے حلقوں سے ابل پڑیں۔سانس تیز ہوگیا اور اس نے یک بیک چیخ کر کہا۔’’تم سب قوم کے غدّار ہو۔‘‘
Treacherous of nation اور وہ تیزی سے مڑ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنی کرسی میں آکر ڈھیر ہوگیا۔ آنکھیں بند کرلیں اور گہری گہری سانسیں لینے لگا۔
سیّد، دیشمکھ اور کاملے اسے حیرت سے منہ کھولے دیکھتے رہ گئے۔ دوسری میزوں پر بیٹھے کلرک بھی گردن اٹھا اٹھا کر ان کی جانب دیکھنے لگے۔ کاملے نے آہستہ سے سرگوشی کی۔’’سالے کو ہوکیا گیا ہے؟‘‘
دیشمکھ نے غصّے سے کہا۔’’ یہ ایک دن میرے ہاتھ سے پِٹے گا، تبھی سیدھا ہوگا۔‘‘
سیّد نے ترس کھایا۔’’جانے دو یار۔۔۔میں سمجھتا ہوں آج کل یہ بیمار ہے۔‘‘
’’بیمار ہے تو مینٹل ہاسپٹل میں بھرتی ہوجائے ، ہم کو کیوں بور کرتا ہے۔‘‘
اس دن کے بعد سے دفتر میں سبھی لوگ اس سے کترانے لگے۔ اور وہ پورے دفتر میں ’کریک‘ مشہور ہوگیا۔مگر اسے ان باتوں کی پرواہ نہیں تھی۔ اسے یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوجائے گا اور لوگ راہِ راست پر آجائیں گے۔
اب وہ خود نظم و ضبط کا اس قدر پابند ہوگیا تھا کہ ہمیشہ سڑک کے بائیں طرف فٹ پاتھ پر چلنے کی کوشش کرتا۔ جب تک گرین سگنل نہ ہوجاتا سڑک پار نہ کرتا۔ ریلوے پل پار کرتے ہوئے، ’کیپ لیفٹ‘'Keep Left'کا برابر خیال رکھتا۔ اسے یہ دیکھ دیکھ کر کوفت ہوتی کہ لوگوں کو ابھی تک سڑک پر چلنے اور پل پار کرنے تک کا شعور نہیں آیا ہے۔ ہر گھڑی، ہر مقام پر لوگ ایک دوسرے کو دھکیلتے ، روندتے یوں بے تحاشا بھاگ رہے ہوتے جیسے موت ان کے تعاقب میں ہو، ایسے مواقع پر وہ پل کے بیچوں بیچ کھڑا ہوجاتا۔ اور دونوں ہاتھ اٹھا کر چیخنے لگتا۔
’’بائیں طرف سے چلئے،بائیں طرف سے پلیز۔۔۔کیپ لیفٹ۔‘‘
مگر زبردست شور میں اس کی آواز کوئی نہیں سنتا اور جو سنتا بھی تو توجہ نہیں دیتا۔ وہ کھڑا دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر ’پلیز کیپ لیفٹ‘ چیختا رہتا۔
ایک دفعہ ایک دُبلا پتلا نوجوان سیدھے اس سے آکر ٹکرا گیا۔ اس نے لپک کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’وہاٹ اِز دِس مسٹر؟‘‘
’’وہاٹ ہیپّنڈ؟‘‘
نوجوان نے بھی تیوریاں چڑھائیں۔ اس نے پُل پر لگی ’کیپ لیفٹ‘ کی تختی کی طرف اشارہ کیا اور بولا۔
’’اس پر کیا لکھا ہے؟‘‘
’’اپن کو انگلش نہیں آتا۔‘‘ نوجوان نے جھٹکے سے اپنی کلائی چُھڑالی۔
’’اس پر لکھا ہے ’کیپ لیفٹ‘ ، بائیں طرف چلئے۔‘‘
’’توتم چلو۔۔۔ ہم کو کیا بولتا ہے۔ بڑا آیا سالا قانون سِکھانے والا۔‘‘
نوجوان منہ سے کف اڑاتا تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
وہ چپ چاپ کھڑا اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ اسے نوجوان کے اس ہتک آمیز رویّے پر کوئی صدمہ نہیں ہوا۔ کیونکہ اب اس نے ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کا بُرا ماننا چھوڑ دیا تھا۔
اس دن ریل کے ڈبّے میں بھی چند نوجوان طلبہ اس سے الجھ پڑے تھے۔
اس نے انہیں صرف الکڑک سوئچ بار بار’ آن آف‘ کرنے سے منع کیا تھا۔
’’تم کون ہوتے ہو ہمیں روکنے والے؟‘‘
’’میں اس دیش کا ایک ذمہ دار ناگرِک ہوں۔‘‘
’’تو ہم بھی اس دیش کے بھاگیہ وِدھاتا ہیں۔‘‘
’’مگر آپ لوگ جنتا کی پراپرٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘‘
’’ابے چوپ، جنتا کے بچّے ،نہیں تو بتیسی اکھاڑ کر ہاتھ میں دے دوں گا۔‘‘
اگر دوسرے مسافر بیچ بچاؤ نہ کرتے تو وہ لوگ اسے سچ مچ پیٹ کر رکھ دیتے۔
جب اسٹیشن آیا تو وہ نوجوان ہو ہلّا کرتے ہوئے نیچے اتر گئے۔ ایک نے اترتے اترتے اس کے ایسی چپت لگائی کہ سر ڈبّے کی دیوار سے جا ٹکرایا۔ کسی نے فقرہ کسا۔ ’’اے بیوڑا!‘‘
مگر اس کے ماتھے پر شکن نہ آئی۔ اس نے بھی طے کر لیا تھا کہ خواہ کچھ ہوجائے، لوگ اسے کتنا ہی ذلیل کریں، گالیاں دیں، اذیتیں پہنچائیں، مگر وہ انہیں ان کی غلطیوں پر روکتا اور ٹوکتا رہے گا۔ آخر کب تک نہیں مانیں گے۔ ایک نہ ایک دن اپنی غلطی پر نادم ہوں گے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگیں گے۔ اس خیال کے ساتھ ہی اس کے رویّے میں ایک طرح کی پیغمبرانہ شان پیدا ہوجاتی اور وہ زیادہ مستعدی سے لوگوں کو راہِ راست پر لانے کے مِشن پر لگ جاتا۔ جب اس کے سامنے کوئی غلط کام کرتا تو اسے لگتا اس کے اندر سے کوئی چیخ رہا ہے۔’’ روکو اِسے غلطی سے روکو۔ اسے روکنا تمہارا فرض ہے کہ تم ایک سچے اور ذمہ دار شہری ہو مگر۔۔۔
پرسوں راجا رام پنواڑی کی دوکان کے پاس سے گزررہا تھا کہ ’پچ‘ پان کی ایک پچکاری اس کے پاؤں کے پاس آگری۔ وہ بال بال بچ گیا تھا۔ ورنہ اس کی پتلون کے پائینچے ’لالہ زار‘ ہوجاتے۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا، ایک موٹا شخص پان چباتا ہوا اسی کو گھور رہا تھا۔ ’’ساری۔۔۔‘‘موٹے نے دوسری پیک کو منہ میں گھولتے ہوئے گردن ٹیڑھی کرکے کہا۔
’’مگر مسٹر! یہ بُری بات ہے۔ ایک ذمہ دار شہری کے ناطے آپ کو۔۔۔‘‘
’’ہم ساری بولا نا۔۔۔ ابھی کیا ہے؟‘‘
موٹے نے پاس ہی ایک دوسری پچکاری مارتے ہوئے کہا۔
’’مگر یہ نہایت غلط بات ہے کہ آپ۔۔۔‘‘
’’کمال ہے، ہم ’سَوری‘ بول دیا تم پھر بھی بھنکس کیے جارہا ہے، دیکھو تمہارے پر ایک چھینٹا بھی نہیں اڑا ہے۔‘‘
’’مجھ پر چھینٹا اڑنے کی بات نہیں۔ اس طرح سڑک اور فٹ پاتھ پر پان کی پیک تھوکنا ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے آپ کو شوبھا نہیں دیتا۔‘‘
’’پن تم کیا مونسی پلٹی والا ہے؟ تمہارا پینٹ کھراب ہوا ہے تو بولو۔۔۔ نہیں تو رستہ پکڑو۔۔۔‘‘
’’حولدار صاحب!‘‘ اس نے پاس سے گزرتے ہوئے ایک حوالدار کو آواز دی۔
’’دیکھئے یہ صاحب سڑک پر تھوکتے ہیں۔‘‘
’’تو ہم کیا کریں گا۔۔۔؟‘‘ حوالدار کے ماتھے کے بل بڑھ گئے۔
’’مگر اس طرح سڑک پر تھوکنا ڈسپلن کے خلاف ہے۔‘‘
’’اے! ہم کو کانون مت بتاؤ۔ ہم کو مالوم ہے ڈسپلن کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ تم اپنا کام کرو۔۔۔پچ۔۔۔‘‘
حوالدار نے اپنے منہ میں دبی ’سورتی‘ کی ایک پچکاری ماری اور ڈنڈا ہلاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔’’اونہہ۔۔۔ڈِسّی پلّین۔۔۔‘‘ حوالدار بڑبڑا رہا تھا۔
موٹا یک بھدی سی ہنسی ہنسا۔ وہ دل مسوس کر رہ گیا۔ لوگ کس قدر بے اصولے ہوگئے ہیں، آخر لوگوں کی بے قاعدگی اس ملک کو کس نرک میں پہنچا کر دم لے گی۔ دُکھ، تردّد اور ندامت سے اس کے سینے میں مستقل درد رہنے لگا۔ ایک دن وہ بس کی قطار میں کھڑا لوگوں کے اتاولے پن کو دیکھ دیکھ کر کڑھ رہا تھا، جب بس آتی تو لوگ قطار توڑ توڑ کر بھیڑ بکریوں کی طرح ایک دوسرے کو ٹھیلتے، دھکیلتے بس کی طرف بڑھتے اور بس میں سوار ہونے کی کوشش میں ایک دوسرے پر پل پڑتے۔ جب چھ بسیں گزر گئیں اور اسے قطار میں ایک ہی جگہ کھڑے پون گھنٹہ ہوگیا تو وہ آگے بڑھا اور لوگوں کو ڈسپلن برقرار رکھنے اور قطار سے بس میں سوار ہونے کی اپیل کرنے لگا۔ مگر اس کی طرف دھیان دینے والا کون تھا؟ اس کا لیکچر جاری ہی تھا کہ اتنے میں ساتویں بس آگئی۔ لوگ ایک بار پھر بس کی طرف جھپٹے۔۔۔
’’بھائیو! قطار میں چلو۔۔۔ ارے بھائی لائن میں آیئے۔‘‘
’’کونسی لائن؟‘‘
’’اے مسٹر پلیز! لائن میں۔۔۔ آپ تو پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
’’شٹ اپ‘‘
’’مہاشے! لائن سے آیئے۔۔۔ لائن سے۔۔۔‘‘
’’لائن کے بچے ! راستہ چھوڑ۔۔۔‘‘
’’جنٹلمین۔۔۔ پلیز۔۔۔‘‘
جنٹلمین کا الٹا ہاتھ اس کے منہ پر پڑا اور جنٹلمین بھیڑ کو چیرتا ہوا ارنے بھینسے کی طرح بس میں گھُستا چلا گیا۔
اس قسم کے حادثے اب اس کے روزمرہ کا معمول بن گئے تھے۔ مگر اِن حادثوں سے اس کی ہمت پست نہیں ہوئی ۔ اسے لگتا ایک دریائے آتشیں اس کے سامنے ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور اسے پار کئے بغیر منزلِ مقصود تک پہنچنا مشکل ہے۔ اس نے دفتر سے لمبی چھٹی لے لی اور پورے جوش و خروش کے ساتھ لوگوں کے مردہ ضمیر جگانے کے عظیم کام میں جٹ گیا۔
وہ صبح سویرے کاندھے سے ایک جھولا لٹکائے گھر سے نکل پڑتا۔ گلی گلی ، محلّہ محلّہ گھوم کر رشوت ستانی، بد عنوانی، کالا بازاری اور بے قاعدگی کے خلاف تقریریں کرتا، لوگوں کو سخت محنت، نظم و ضبط، معاشی ترقی اور سماجی انصاف کے لیے جدوجہد کرنے کی تلقین کرتا اور نتیجے کے طور پر کہیں مار کھاتا، کہیں گالیاں سنتا۔ جب بیوی گھریلو مسائل کی طرف توجہ دلاتی، اپنی اور اپنے بچوں کی بیماری کا ذکر کرتی، غربت و افلاس کی دہائی دیتی تو وہ بیوی کو سمجھاتا۔
’’بھاگیہ وان! کیوں پریشان ہوتی ہو۔ بہت جلد سب کے دلدّر دور ہوجانے والے ہیں۔ صبر سے کام لو۔ کچھ حاصل کرنے سے پہلے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ ہمیں قربانی دینی ہوگی۔۔۔ دینی ہی ہوگی۔‘‘
’’مگر قربانی ہمیں کیوں دیں؟ اور بھی تو کروڑوں لوگ ہیں۔‘‘
’’اگر سب اندھے بہرے ہیں تو کیا، ہم اندھے بہرے بن جائیں؟‘‘
’’مگر آپ اکیلے کیا کرسکتے ہیں؟‘‘
میں اکیلا کہاں ہوں۔ میرا یقین، میرے اصول میرے ساتھ ہیں۔‘‘
وہ ایک جنونی اعتماد کے ساتھ جواب دیتا۔
’’گھر میں نہیں ہیں دانے، میاں چلے بھنانے۔۔۔میں کہتی ہوں کیا آپ نے ساری دنیا کو سدھارنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور پھر گھر میں آگ لگا کر سڑکوں پر دیے جلانا کونسی لوک سیوا ہے؟‘‘
’’تم ابھی ان باتوں کو نہیں سمجھو گی۔‘‘
’’میں سمجھنا بھی نہیں چاہتی۔ جہاں آپ سارے جگ کے لیے کام کررہے ہیں، میرا بھی ایک چھوٹا سا کام کردیجئے۔‘‘
’’کیسا کام؟‘‘
’’کہیں سے تھوڑا سا زہر لادیجئے۔ میں اور میرے بچے کھا کر سو رہیں گے۔ اس کے بعد آپ جی کھول کر لوک سیوا کرتے پھریئے۔‘‘
بیوی اپنے میلے آنچل سے آنسو پونچھتی ہوئی وہاں سے چلی گئی اور وہ حیران پریشان کمرے میں بیٹھا رہ گیا۔ مگر بیوی کے آنسو، بچوں کا بلکنا، یاروں کی خفگی، پڑوسیوں کی جھڑکی، لوگوں کی گالیاں، حقارت، دُھتکار اور تذلیل کوئی چیز اسے اپنے اِرادے سے باز نہ رکھ سکی۔ لوگ اس سے جتنا کھنچتے وہ اتنا ہی ان کے قریب ہونے کی کوشش کرتا۔ وہ باہر سے جتنا ٹوٹ رہا تھا، بھیتر سے اتنا ہی جُڑتا جا رہا تھا۔ صحت گرگئی تھی مگر قوتِ ضبط میں زبردست اضافہ ہوگیا تھا البتہ اس بیچ اس کی بیوی کی ساڑی مسک گئی اور روتے روتے اس کے زرد رخساروں پر آنسوؤں کی لکیریں نقش ہوگئیں۔ مُنّی کی کھانسی میں اضافہ ہوگیا۔ بڑا لڑکا اب کچھ زیادہ ہی سہما سہما سا رہنے لگا۔ خود اس کے پتلون کا رنگ اس قدر گدلا ہوگیا کہ اس کے اصلی رنگ کی شناخت نا ممکن ہوگئی۔ قمیض کا کالر پھٹ گیا۔ چپلیں ٹوٹ گئیں اور موچی ان میں ٹانکے لگاتے لگاتے عاجز آگیا۔ مگر اس کے جوش و خروش میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی۔ بے پناہ ذمّہ داریوں کے بوجھ سے اس کے کاندھے دبے جارہے تھے اور وہ زمین میں دھنستا چلا جارہا تھا۔ مگر وہ اپنی پوری قوت سے زمین پر پیر گڑائے رکھنے کی کوشش کرتا، مبادا قدم ڈگمگا نہ جائیں۔
اور پھر یوں ہوا کہ ایک دن علی الصبح حسبِ معمول وہ مٹکے کا ایک گلاس ٹھنڈا پانی پی کر اپنا میلا جھولا کاندھے سے لٹکائے گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ دروازے پر ایک پولس کا سپاہی کھڑا دِکھائی دیا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘اس نے استفسار کیا۔
’’کیا مسٹر ہریشچندر اِدھر رہتا ہے؟‘‘
’’جی۔۔۔‘‘ لمحے بھر کے لیے وہ کانسٹیبل کو دیکھتا رہا پھر بولا۔
’’فرمایئے، میں ہی ہریشچندر ہوں۔‘‘
’’تم کو انسپکٹر صاب نے چوکی پر بلایا ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اپنے کو نئیں مالوم۔ چوکی پر چل کر صاب سے پوچھو۔‘‘
’’مگر۔۔۔‘‘اس نے کچھ کہنے کے لیے ہونٹ کھولے، پھر کچھ سوچتا ہوا بولا۔
’’خیر ۔۔۔چلو۔۔۔‘‘
وہ کانسٹیبل کے ساتھ تھانہ پہنچا۔ کانسٹبل اسے ایک سیلن زدہ کمرے میں ایک بوسیدہ سی کرسی پر بٹھا کر باہر چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد کمرے میں ایک انسپکٹر داخل ہو۔ انسپکٹر پر نظر پڑتے ہی وہ کرسی سے اٹھ گیا۔ انسپکٹر نے اسے سر سے پیر تک گھور کر دیکھا۔ پھر اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔
’’تو آپ ہی مسٹر ہریشچندر ہیں۔۔۔؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ آخر بات کیا ہے؟ مجھے یہاں کیوں بلایا گیا ہے؟‘‘
’’آپ کے خلاف شکایت ہے کہ آپ لوگوں کو پریشان کرتے ہیں اور ان کے کاموں کا ہرجہ کرتے ہیں۔‘‘
’’میں۔۔۔!‘‘ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’ جی ہاں آپ!‘‘
مگر میں نے کسے پریشان کیا ہے؟ کس کے کام کا ہرجہ کیا ہے؟‘‘
ایک نہیں درجنوں شکایتیں ہیں۔‘‘
انسپکٹر دروازے کی طرف مڑا اور بلند آواز سے بولا۔
’’مہربانی کرکے آپ لوگ اندر تشریف لایئے۔‘‘
چق ہٹی اور ایک ایک کرکے لوگ اندر آنے لگے۔ اور وہ ان سب لوگوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ان میں اس کے دفتر کے ساتھی کاملے، سیّد اور دیشمکھ کے علاوہ ریلوے کمپارٹمنٹ کے نوجوان طلبہ، سڑک پر پان کی پیک تھوکنے والا موٹا شخص، بس کی کیو والا جنٹلمین، اس کے محلّے کا قصائی اور دوسرے درجنوں لوگ شامل تھے اور وہ سب نیم دائرے کی شکل میں اس کے گرد کھڑے اسے حقارت اور غصّے سے گھور رہے تھے۔ ان کی آنکھوں سے نفرت کی چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ پیشانی پر بل پڑے ہوئے تھے اور مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ اس نے کچھ کہنے کے لیے ہونٹ کھولے مگر صرف بدبدا کر رہ گیا۔ الفاظ اپنا آہنگ کھو چکے تھے۔ اس کا سر چکرانے لگا۔ آنکھوں کے گرد تِرمِرے سے اڑنے لگے۔ انسپکٹر اس کی طرف انگلی اٹھا کر کہہ رہا تھا۔
’’مسٹر ہریش! میں تمہیں شہری ڈسپلن کو برباد کرنے اور شریف شہریوں کو پریشان کرنے کے جرم میں گرفتار کرتا ہوں۔‘‘
اس کی آنکھیں بند ہوچکی تھیں اور اسے انسپکٹر کی آواز دور کسی تہہ خانے سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس پر غشی سی طاری ہوگئی اور دوسرے ہی لمحے اس کا سر کرسی کی پشت سے ٹک گیا۔