سبق

ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا مگر چاروں طرف ملگجا اجالا پھیلنے لگا تھا۔ تمام بھکشو کلندک جھیل میں غسل کرنے کے بعد ’وینووَن‘ لوٹ آئے تھے۔ وینووَن کے چاروں طرف بانسوں کا جنگل تھا۔ بھکشوؤں نے بانسوں کو کاٹ چھانٹ کر چھوٹی چھوٹی کٹیائیں بنالی تھیں۔ ہر کٹیا میں چار چار پانچ پانچ بھکشوؤں کا قیام تھا۔ ایک طرف بڑے سے پیپل کے پیڑ کے نیچے بُدھ کی کٹیا ایستادہ تھی۔ بدھ کی کٹیا کی بغل میں آنند کی کٹیا تھی۔ بدھ اور آنند رات کے پچھلے پہر ہی اٹھ جاتے اور دوسرے بھکشوؤں کے جاگنے سے پہلے غسل وغیرہ سے فارغ ہوجائے۔ غسل کے بعد آنند پیپل کی ٹہنی سے بندھے پیتل کے گھنٹے کو بجاتے، گھنٹے کی آواز سنتے ہی تمام بھکشو اپنی اپنی کٹیا سے نکل کر کلندک جھیل کی طرف نکل جاتے، جنگل میں صبح کی ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد سب جھیل میں غسل کرتے۔ اپنی اپنی کفنیوں کو اتار کر دھوتے، پھر صاف ستھری گیروے رنگ کی کفنیاں گلے میں ڈالتے اورآہستہ خرامی کے ساتھ اپنی اپنی کٹیاؤں میں لوٹ آتے۔ جونہی سورج کی پہلی کرن پیپل کی سب سے اوپری پھُنگی کا ماتھا چومتی آنند ایک بار پھر پیتل کا گھنٹہ بجاتے اور بھکشو کٹیاؤں سے نکل نکل کر بُدھ کی کٹیا کے سامنے پیپل کے پیڑ کے نیچے جمع ہونے لگتے۔
حسبِ معمول آج بھی تمام بھکشو غسل سے فارغ ہوکر اپنی اپنی کٹیا میں بیٹھے دوسرے گھنٹے کا انتظار کررہے تھے۔
سواستی، کمبِل، بھاردواج اور سنجے ایک ہی کٹیا میں مقیم تھے۔ کمبِل، بھاردواج اور سنجے تو آنکھیں بند کیے دھیان سا دھنا میں مگن تھے، مگرسواستی آنکھیں کھولے بار بار پہلو بدل رہا تھا، جیسے اپنی ساتھوں سے کچھ کہنے کے لیے بیتاب ہو۔ آخر تھوڑی دیر یونہی پہلو بدلنے کے بعد اس نے بلند آواز سے اپنے ساتھیوں کو پکارا۔
’’مترو!‘‘ اس کی آواز میں ہلکی سی کپکپی تھی۔ ’’میں آپ لوگوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
کمبِل، بھاردواج اور سنجے نے آنکھیں کھول دیں اور سواستی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ سواستی کہہ رہا تھا۔ ’’مترو!آج میرا من بہت اشانت ہے۔ میں رات میں ٹھیک سے سو بھی نہیں سکا۔‘‘
اس کی بات سن کر تینوں ساتھی اسے حیرت اورتشویش سے دیکھنے لگے۔ انہوں نے کبھی کسی بھکشو کو ایسی شکایت کرتے نہیں سنا تھا۔ سواستی کو سنگھ میں شامل ہوئے صرف ایک مہینہ ہوا تھا۔ ابھی اسے سنگھ کے اصولوں اور دھیان سادھنا کے طور طریقوں کی پوری طرح آگاہی نہیں تھی۔ سنگھ میں شامل ہونے کا مطلب ہوتا ہے اپنے آپ کو پوری طرح سنگھ کے سپرد کردینا۔ دھیان سادھنا کے ذریعے اپنے بے چین من کو شانت کرنا اور رفتہ رفتہ نفسانی خواہشات سے مُکتی پالینا۔ اگر سواستی کا من بے چین ہے تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ وہ موکش، شانتی، آنند اور دھرم مارگ سے دور ہوتا جارہا ہے۔
اپنے ساتھیوں کی آنکھوں میں تشویش کے آثار دیکھ کر سواستی تھوڑا نادم ہوا پھر بولا؛
’’آپ لوگ میری بات کا غلط مطلب نہ لیں۔ دراصل میں ایک چرواہا ہوں۔ سنگھ میں شامل ہونے سے پہلے بھینسیں چَرایا کرتا تھا۔ بھینسیں چراتے ہوئے جنگل میدان میں گھومنا، بھوک لگنے پر قند مول کھالینا، پیاس لگنے پر ندی جھرنے کا پانی پی لینا اور نیند آنے پر پیڑ کے نیچے سورہنا، یہی میری زندگی تھی۔ میں پڑھنا لکھنا نہیں جانتا۔ نہ مجھے کبھی پڑھے لکھوں کی صحبت ہی نصیب ہوئی۔ اسی لیے بہت سی باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ اگر آتی بھی ہیں تو دیر سے آتی ہیں۔ لیکن۔۔۔ یہ مت سمجھنا کہ سنگھ پر میرا وشواس نہیں ہے۔ میرا سنگھ پرپورا وشواس ہے مگر جب کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تو من بے چین ہوجاتا ہے۔ آپ ہی لوگ میرا مارگ درشن کریں۔ ایسی حالت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘
سنجے نے تفہیمی انداز میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔’’سواستی! تم ٹھیک کہتے ہو۔ جو بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ کسی بات کو بنا سمجھے قبول کرنا ایسا ہی ہے جیسے بغیر پیاس لگے پانی پینا یا بغیر بھوک لگے بھوجن کرنا۔ ویسے کیا تم بتانے کی کرپا کرسکتے ہو کہ ایسی کونسی بات ہے جو تمہاری سمجھ میں نہیں آئی؟‘‘
سواستی تھوڑی دیر گردن جھکائے بیٹھا رہا۔ پھر گردن اٹھا کر تینوں پر ایک اچٹتی نگاہ ڈالی۔ تینوں کی نظریں اس کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں۔ اس نے اٹکتے جھجکتے کہا؛’’کل کے پروچن میں تتھاگت نے کہا تھا’شبدوں سے اس پرم ستیہ کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ صرف انوبھو کے ذریعے ہی اس پرم ستیہ کو پایا جاسکتا ہے۔‘ میں نے اِس پر بہت غور کیا مگر گرودیو کا یہ وچن میری سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘
اس کے تینوں ساتھی ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد بھاردواج نے کہا۔’’سواستی! اگرچہ گرودیو کا یہ وچن بہت صاف ہے پھر بھی وہ تمہاری سمجھ میں نہ آیا ہو تو تم آج پروچن کے بعد ان سے سوال کر کے اس کا مطلب پوچھ سکتے ہو۔‘‘
’’مجھے سب کے سامنے سوال پوچھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ‘‘ سواستی نے جھینپتے ہوئے کہا۔
’’گیان حاصل کرنے میں شرم کیسی؟‘‘سنجے نے اسے سمجھایا۔
سواستی تھوڑی دیر خاموش رہا پھر بولا؛ ’’ ٹھیک ہے۔ آپ لوگ کہتے ہیں تو میں آج پروچن کے بعد تتھا گت سے اس وچن کا مطلب پوچھوں گا۔‘‘
تبھی گھن، گھن ، گھن گھنٹے کی آواز سنائی دی اور چاروں ساتھی اٹھ کر کٹیا سے باہر آگئے۔ دوسری کٹیاؤں سے بھی بھکشو ایک ایک دو دو کرکے باہر نکل رہے تھے۔ اس وہار میں تقریباً تین سو بھکشوؤں کا قیام تھا۔ صبح کے دھندلکے میں دور سے ان کے گیروے لباس یوں لگ رہے تھے جیسے بانس کے جنگل میں جگہ جگہ زعفران کے کھیت اگے ہوں۔ وہ سب شانت بھاؤ سے نپے تلے قدم اٹھاتے اس پیپل کے پیڑ کی طرف بڑھ رہے تھے جس کی چھاؤں میں تتھا گت مہاتما بدھ بیٹھ کر پروچن دیا کرتے تھے۔ تمام بھکشو زیرِ لب منتر پڑھتے جارہے تھے۔
بدھم شرنم گچھامی
دھمم شرنم گچھامی
سنگھم شرنم گچھامی
گیروے رنگ کی کفنیوں میں لپٹے بھکشوؤں کے متحرک ہیولے، کفنیوں سے جھانکتے ان کے گُھٹے ہوئے سر، ہونٹوں سے نکلتے منتروں کی مدھم گونج، بانس کے پیڑوں کے درمیان سرسراتے ہوا کے جھونکے، درختوں کی ٹہنیوں پر پرندوں کی بے ہنگم پھڑپھڑاہٹ، کُل ملا کر فضا میں ایک عجیب سی پُراسراریت گھل مل گئی تھی۔ جس میں تقدس کی جھلک بھی شامل تھی۔
تھوڑی دیر میں تمام بھکشو پیپل کے نیچے اکٹھا ہوگئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب اس طرح قطاریں بنا کر بیٹھ گئے جیسے پہلے سے یہ طے ہو کہ کس کو کہاں بیٹھنا ہے۔ نہ کسی کو کسی کا دھکا لگا، نہ کسی سے کسی کا کھوا چھلا۔ آنند پیپل کے نیچے کھڑے ان کا مشاہدہ کررہے تھے۔ جب تمام بھکشو قطاروں میں بیٹھ گئے تب آنند نے ایک طائرانہ نگاہ ان پر ڈالی اور پلٹ کر بُدھ کی کٹیا کی طرف دیکھا۔ بدھ گیروا چولا دھارن کیے کٹیا سے باہر نکل رہے تھے۔ ان کا مکھ منڈل گہرے سمندر کی طرح شانت تھا اور ہونٹوں پر پُر سکون ، دائمی مسکراہٹ تھی۔ بدھ پر نظر پڑتے ہی تمام بھکشو احتراماً کھڑے ہوگئے۔ بھکشوؤں کو دیکھ کر بدھ کی آنکھوں سے شفقت جھلکنے لگی۔ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر بھکشوؤں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ بھکشو بیٹھ گئے۔ بدھ بھی پیپل کے نیچے پڑے ایک اونچے پتھر پر پدماسن کی مُدرا میں براجمان ہوگئے۔ ان کے دائیں طرف آنند بھی آسن پر بیٹھ گئے۔ بدھ نے ایک نظر بھکشوؤں کو دیکھا اور ریشم سے ملائم لہجے میں گویا ہوئے۔’’بھکشوؤ! آج۔۔۔
ابھی بُدھ نے اتنا ہی کہا تھا کہ کہیں سے ایک خوبصورت پرندہ اڑتا ہوا آیا اور پیپل کی ڈال پر بیٹھ کر زور زور سے چہکنے لگا۔ بدھ نے نظر اٹھا کر پرندے کو دیکھا اور خاموش ہوگئے۔
پرندہ چہکتا رہا۔۔۔ بھکشوؤں نے بھی پرندے کو دیکھا۔ پرندہ اپنی ہی مستی میں چہکے جارہا تھا۔ اس کی چہکار سے فضا میں سنگیت سا گھل رہا تھا۔ ایسا لگتاتھا پرندے کو وہاں سوا ئے اپنے کسی اورکے ہونے کا گمان تک نہیں ہے۔ بدھ آنکھیں بند کیے شانت بیٹھے تھے۔ بھکشو سمجھ گئے کہ تتھا گت اس پرندے کے گیت گان میں خلل ڈالنا نہیں چاہتے۔ بھکشو بھی خاموشی سے پرندے کی چہکار سنتے رہے۔ بعض بھکشوؤں کے دل میں آیا کہ ہُشکار کر پرندے کو اڑا دیں مگر بدھ کی محویت کو دیکھ کر وہ اس کی جرأت نہ کرسکے۔ لہٰذا وہ بھی خاموشی سے اس کی چہکار سنتے رہے۔ آخر چہکتے چہکتے یک بیک پرندے نے پر پھیلائے اور ایک غوطہ لگا کر ہوا میں اڑتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ بھکشوؤں نے اطمینان کا سانس لیا۔ بدھ نے آنکھیں کھول کر بھکشوؤں کی طرف دیکھا۔ بھکشو سنبھل کر بیٹھ گئے۔ وہ منتظر تھے کہ بدھ اپنا پروچن دوبارہ شروع کریں گے۔ مگر۔۔۔
یہ کیا؟ بدھ نے ہاتھ اٹھا کر نہایت شانت لہجے میں کہا۔
’’بھکشوؤ! آج کا سبق تمام ہوا۔۔۔باقی کل۔۔۔‘‘
اور اپنے آسن سے اٹھ گئے۔ بدھ کے ساتھ آنند بھی کھڑے ہوگئے۔ بدھ اپنی کٹیا طرف جا رہے تھے ۔ آنند ان کے پیچھے تھے۔ بعض بھکشوؤں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ بعض صرف گردنیں ہلا کر رہ گئے۔ بعض نے کوئی ردّ عمل ظاہر نہیں کیا۔ آخر سب اٹھ اٹھ کر اپنی اپنی کٹیا کی طرف روانہ ہوگئے۔
سنجے، بھاردواج، سواستی اور کمبِل بھی اپنی کٹیاکی طرف چل دیے۔ چاروں خاموش تھے۔ چلتے چلتے بھاردواج نے سواستی سے کہا۔
’’سواستی! تم نے بدھ سے اپنی شنکھا نہیں پوچھی؟‘‘
سواستی نے رسان سے کہا؛’’نہیں۔۔۔آج کے پروچن سے میں ساری بات سمجھ گیاہوں۔ اب میرے من میں کوئی شنکھا نہیں ہے۔‘‘
سنجے، بھاردواج اور کمبِل سواستی کو حیرت سے یوں دیکھنے لگے جیسے اس کے سر پر دو سینگ نکل آئے ہوں۔