افسانہ

تمغہ

ڈی آئی جی سمیت پولیس کے تمام افسران موجود تھے۔ سُرخ قالینوں اور کُرسیوں پر لوگوں کی بڑی تعداد جمع تھی۔ اسٹیج کو پولیس کے شہد ا کی تصویروں اور پھولوں سے سجا دیا گیا تھا۔ اناؤنسر نے مختصر تمہید کے بعد ڈی آئی جی شمس الحسن کو ڈائس پر آنے کی دعوت دی۔ ڈی آئی جی ڈائس پر آئے توہال میں ...

مزید پڑھیے

کت

رفیق کا قد ساڑھے چھ فٹ اور چھاتی چوڑی تھی۔ اُس کے پاس بہت سی بھینسیں تھیں۔ ڈانگ لکڑ ہاتھ میں لے کر نہ چلتا لیکن سامنے شیر بھی آ جاتا تو فوراً ٹکرا جاتا۔ آنکھیں موٹی اور سُرخ انگارہ تھیں مگر کم لوگوں کے ساتھ اُس کا دنگا ہوا۔ ایک عیب اُس میں ضرور تھا۔ لوگوں کے کھیتوں سے چوری کاچارہ ...

مزید پڑھیے

نسلیں

یہ آدمی کچھ ہی دن پہلے اِس پارک میں آیا تھا۔ پھٹی پُرانی شرٹ کے ساتھ میلا چکٹ پاجامہ اورپاجامے کوکپڑے کی ایک دھجی سے باندھا ہوا تھا۔ داڑھی اور سر کے بال جھاڑ جھنکاڑ تھے۔ اِس کے پاس ایک بوری نما بڑا سا تھیلا تھا۔ مَیںیہ تو نہیں جانتا، تھیلے میں کیا تھا مگر یہ وہ تھیلا نہیں تھا، جو ...

مزید پڑھیے

آؤ ہم اس دنیا سے نکل چلیں

آؤ ہم اور تم محبت کے شور انگیز دریا کو تیر کر دوسرے ساحل پر جا اتریں۔ اس ریتیلے ساحل کو جس پر ہم کھڑے ہوئے ہیں، سفید دیمک نے کھوکھلا کر دیا ہے۔ آؤ۔۔۔ آؤ ہم اس دریا کو تیر چلیں جس کی گہرائیوں میں چھوٹی چھوٹی آنکھوں والے نہنگ شکار کی تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ فضول سوال مت کرو کہ ...

مزید پڑھیے

لچھمی

کارخانوں کی لمبی اور بھدی چمنیوں سے دھواں مزدوروں کی آہوں کی طرح باہر آرہا تھا اور چاروں طرف جلی ہوئی راکھ کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ یہ شہر کا وہ حصہ تھا جو مزدوروں اور صرف مزدوروں سے آباد تھا۔ مجھے ایک کارخانہ میں پندرہ روپیہ کی ایک اسامی مل گئی تھی، اس لیے میں بھی یہیں رہتا تھا۔ ...

مزید پڑھیے

چہرو مانجھی

ہوا بہت دھیمے سروں میں گا رہی تھی، دریا کا پانی آہستہ آہستہ گنگنا رہا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے یہ نغمہ بڑا پرشور تھا لیکن اب اس کی تانیں مدھم پڑ چکی تھیں اور ایک نرم و لطیف گنگناہٹ باقی رہ گئی تھی۔ وہ لہریں جو پہلے ساحل سے جا کر ٹکرا رہی تھیں، اب اپنے سیال ہاتھوں سے تھکے ہوئے ساحل کا ...

مزید پڑھیے

پر جھڑنے کے دن

کتھئی رنگ کے وصل آباد ریلوے سٹیشن پر کھڑے ہوں تو ناک کی سیدھ میں آم کے باغات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ گرمیوں میں یہ باغات پھل سے لد جاتے ہیں اور ٹہنیوں سے سونے کی رنگت والے آم، دھوپ میں پلیٹ فارم پر یوں نظر آتے ہیں جیسے سیاہ وہ گہرے سبزلباس میں گہنوں سے لدی حسینائیں وصل کو آباد ...

مزید پڑھیے

کہیں یہ پروائی تو نہیں

تین سوپینسٹھ دنوں کا بھاری بوجھ ایک بار پھر حال کے ہاتھوں سے پھسل کر ماضی کے اندھیارے غار میں جا گرا ہے۔ اس اجاڑ سے کمرے کی کھڑکیاں چوپٹ کھلی ہیں، گہرے سبز درختوں کے عقب میں سرمئی بادلوں میں لپٹا ہوا آسمان کتنا عجیب نظر آرہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کسی نے خلائی فضاؤں میں بڑاسہانا اور ...

مزید پڑھیے

شیردہان

گرجاگھروالے بڑے سکول کی بائیں طرف سڑک مڑکر گلی میں داخل ہوجاتی تھی یا پھر گلی موڑ کھاکر سڑک پرچلی آتی تھی۔ چھوٹی سی مختصرسی گلی تھی جس پرریڈیوٹرانسٹرکی مرمت کی دکانیں تھیں۔دوچاروہ بھی بہت معمولی ، گردآلود۔ ایک دکان جوریفریجریٹروں کے چھوٹے سے شوروم کی طرح استعمال ہوتی تھی۔ ...

مزید پڑھیے

سانکھیا یوگی

تب سری بھگوان نے یہ اُپدیش دیا: ’’سانکھیا یوگ اورکرمایوگ دونوں ہی مہاآنند کا کارن بنتے ہیں، پرنتودونوں میں کرمایوگ، سانکھیایوگ پربھاری ہے۔ ‘‘ اور سری بھگوان نے یہ بھی کہاکہ کرمایوگی توسنیاسی ہے۔ سری بھگوان، سانکھیایوگ، کرمایوگ اورسنیاس۔ آہ! ’’اوف، اوگوش، وہ کدھر گیا۔ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 218 سے 233