افسانہ

پوتر سیندور

رامو اور اس کا خاندان اس وقت کیاری میں بھدئیں کا بیہن بیٹھا رہا تھا۔ اگست کی آخری تاریخیں تھیں، رات بھر خوب مینہ پڑا تھا۔ مٹی کی کچی دیواریں کٹ کٹ کر گر گئیں تھیں۔ پھونس کے چھپر بھیگ کر دوہرے ہوگئے تھے۔ گاؤں کے تالابوں، گڑھوں میں میلے، گندے پانی کی چادر اب بھی گر رہی تھی۔ مینڈھک ...

مزید پڑھیے

میخانہ

کلکتہ کی مشہور سڑک ہریسن روڈ پر ایک سربفلک عمارت کے بالائی حصے میں سیٹھ نتھومل اپنے چشم و چراغ چنومل کو کاروبار کے کچھ خاص گر بتارہے تھے۔ سیٹھ صاحب کے لباس کی وضع، چہرے کی قطع، توند کا گھیر، باتوں کا ہیر پھیر، غرض سارا ظاہر خاص ماڑواڑی تھا۔ مگر ڈرائینگ روم کا سامان، کوچ کرسیاں ...

مزید پڑھیے

پہرےدار

مسز رابرٹس گرل اسکول میں معلمہ تھیں۔ رہی ہوں گی کبھی اس قابل کہ کسی نے ان پر نظر ڈالی ہو۔ مگر اب تو ان کی صورت میں اور ایک چغادری مینڈک میں کوئی فرق نہ تھا۔ چہرے پر چھوٹی سی چپٹی ناک، موٹی سی گردن ذرا آگے کو نکلی ہوئی، چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں، مگر پیٹ اور اس کے اوپر کا حصہ ارے توبہ! ...

مزید پڑھیے

باسی پھول (۲)

صابرہ کو رخصت کیے ہوئے سات برس کا زمانہ گزر چکاتھا۔ میں بھی نوجوانی کی حدوں کو پار کرکے اور طالب علمی کی بے فکری کو خیرباد کہہ کے، اب ایک ذمہ دار انسان کی طرح اور ایک باقاعدہ وکیل کی حیثیت سے دن بھر کچہریوں کی خاک چھانتا اور بارہ بارہ بجے رات تک، صابرہ کی یاد میں نہیں، بلکہ محض ...

مزید پڑھیے

پاسا

’’ہم نے تمہیں چنا ہی اس کارن ہے کہ تم ساہتیہ اور اتہاس کی باریکیوں کا گیان رکھتے ہو۔ تمہیں کیول یہ کرنا ہے کہ ہماری کلپنا انوسار ایک کتاب لکھو۔‘‘ ’’آپ کی کلپنا کے انوسار؟ آپ۔۔۔ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ ’’ہاں اس اس کتاب کا منسپٹ ہمارا ہوگا۔ اتہاس لکھنے والوں نے کچھ ...

مزید پڑھیے

کہی ان کہی

’’مجھے معلوم ہے وہ دن کون سا ہے۔‘‘، شیروانی میں ملبوس شخص نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔ ’’سچ؟‘‘ سائل کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ’’ہاں مجھے معلوم ہے۔‘‘ ’’تو پھر بتاؤ برادرِ عزیز! مجھے۔۔۔ انہیں، ان سب کو، جہاں تک تمہاری آواز پہنچے، خدا کے لئے بتادو کہ یہ آگ ہمارا پیچھا ...

مزید پڑھیے

دانتوں میں گھری زبان

اس نے پورے زینے بھی طے نہیں کیے تھے کہ پڑوس کی بیوہ کے چھ سالہ بچّے نے اپنے معصوم لہجے میں اسے اس کے بھائی کی آمد سے مطلع کیا۔ ’’بھیّا۔۔۔!‘‘ اس کے لہجےکا تحیر اس کے عدم اعتماد کی گواہی دے رہا تھا مگر بچّے نے اثبات میں سر کو جنبش دے کر اسے اطمینان دلایا اور پھر آگے بڑھ ...

مزید پڑھیے

آپ رکے کیوں نہیں

’’کچھ بھی تو نہیں بدلا، سب کچھ ویسا ہی ہے۔ پہلے بھی سڑک یہاں تک تھی۔ سواریاں ٹم ٹم سے یہیں اترتی تھیں اور اپنا اپنا سامان اٹھائے لوگ گھروں کی طرف چل دیا کرتے تھے۔‘‘ آٹو رکشہ کا کرایہ ادا کرتے ہوئے اظہار نے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا تھا یا کراچی سے ساتھ آئے مختار سے، دونوں کیا ...

مزید پڑھیے

شاہ محمد کا ٹانگہ

میں دیر تک بوسیدہ دیوار سے لگا، تانگے کے ڈھانچے کو دیکھتا رہا، جس کا ایک حصہ زمین میں دھنس چکا تھا اور دوسرا ایک سوکھے پیڑ کے ساتھ سہارا لیے کھڑا تھا، جس کی ٹُنڈ مُنڈ شاخوں پر بیٹھا کوا کائیں کائیں کر رہا تھا۔ کچھ راہ گیر سلام دعا کے لیے رُکے لیکن میری توجہ نہ پا کر آگے بڑھ گئے۔ ...

مزید پڑھیے

سفید موتی

وہ ہم سے پانچ گھر چھوڑ کے رہتا تھا لیکن یہ بات میں نہیں جانتا تھا۔ مَیں تو اُسے سکول میں دیکھتا ہے۔ اُس دن بالکل یہی موسم تھا، اکتوبر کے آغاز کا۔ تب دھوپ میں گرمی نہیں تھی۔ وہ کھلے گراونڈ میں کُرسی پر بیٹھا، اتنا پُرسکون تھا، جتنا کوئی خزاں رسیدہ درخت ہو سکتا ہے۔ پُشت کو کرسی پر ...

مزید پڑھیے
صفحہ 217 سے 233