کت
رفیق کا قد ساڑھے چھ فٹ اور چھاتی چوڑی تھی۔ اُس کے پاس بہت سی بھینسیں تھیں۔ ڈانگ لکڑ ہاتھ میں لے کر نہ چلتا لیکن سامنے شیر بھی آ جاتا تو فوراً ٹکرا جاتا۔ آنکھیں موٹی اور سُرخ انگارہ تھیں مگر کم لوگوں کے ساتھ اُس کا دنگا ہوا۔ ایک عیب اُس میں ضرور تھا۔ لوگوں کے کھیتوں سے چوری کاچارہ کاٹ کر لے جاتا۔ اگرچہ دن کے وقت بھی کسی کے کھیت کو ٹَک لگا دیتا تو پوچھنے والا کوئی نہ تھامگر وہ سینہ زوری نہ کرتا۔ شمشیر خاں اُس کا ایک ہی دوست تھا، جس کے ساتھ اِس کا بیٹھنا اُٹھنا تھا۔ جُثے اور قد کاٹھ میں شمشیر خاں رفیق سے بھی نکلتا تھا۔ شمشیر کے ہاتھ میں ہر وقت پانچ فٹ لمبی ڈانگ ہوتی۔ جسے زمین پر کھڑ کھڑ بجاتا ہوا جاتا۔ بختو نام کی ایک کتیا ہمیشہ اُس کے ساتھ رہتی۔ کتیا اتنی خطرناک اور کاٹنے والی تھی کہ دیو بھی اُس کے نزدیک آنے سے ڈرتا۔ بختو ایک قسم کی اُس کی روح تھی۔ رفیق کی نسبت شمشیرعقل کا موٹا اور ہاتھ کا تیز تھا۔ ذرا سی بات پر سامنے والے کو جھانبڑ لگا دیتا اور مار پیٹ کے بعدمعافی مانگ لیتا۔ یہ بھی ایک طرح سے لوگوں کی انا کو مجروح ہونے سے بچانا تھا۔
شمشیر خاں رفیق کی طرح چوری تو نہ کرتا لیکن گاؤں میں ہلہ گلہ مچائے رکھتا۔ کمزوروں کی خدمت کا ایسا لپکا تھا کہ جو پہلے شکایت لے کر آ گیا، اُسی کے ساتھ ہو لیتا، پھر دنیا کی کوئی دلیل اُس کے سامنے مخالف کا حق پر ہونا ثابت نہ کر سکتی۔ اپنی خوشامد سُن کر پھول جاتا اورکچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا۔اکثر لوگ شغل میں ہی اُس کے ہاتھ سے ایک دوسرے کی دھلائی کرا دیتے۔ جس گدھے پر چارہ ڈھوتا، بعض اوقات اُسی سے زور آزمائی شروع کر دیتا۔ گدھا تو گدھا ہوتا ہے، کبھی اَڑ پھنس کی، یہ اُسے چت کرنے کے لیے کُشتی شروع کر دیتا۔ پھر آدھے گھنٹے بعد دونوں ہانپ کانپ کر گر جاتے۔
کچھ دن سے یار لوگ شمشیر خاں کو رفیق سے بھِڑ جانے پر اُکسا رہے تھے اور ایسی ترکیب کی تلاش میں تھے کہ دونوں کا جوڑ پڑ جائے۔ ایک دن شمشیر خاں اپنی بختو کی زنجیر پکڑے مسجد کے بڑے کنویں کی منڈیر پر بیٹھا تھا کہ کچھ خوشامدیوں نے گھیر لیااور اُس پر پھِرکیاں چڑھانے لگے۔
حبیب جٹ، میاں شیرے تمھاری کیا بات ہے۔ چاہو تو ہاتھی کی سونڈ پکڑ کرگاؤں کے چوک میں کھڑے پیپل سے باندھ دو اور شیر تمھارے سامنے کُتے کا پِلًا ہے۔ گینڈے اور سانڈ تک، تمھاری پھونک سے اُڑ جائیں۔ پھر دوسرے لوگوں کی طرف منہ کرکے، بھئی تمھیں شمشیر کی طاقت کا اندازہ نہیں۔ مَیں نے ایک دن اپنی اِن شیشے جیسی آنکھوں سے دیکھا، شیرے نے ہل جوتا ہوا تھا۔ دوپہر سر پر تھی۔ گرمی کی وجہ سے پسینے کی نہریں جاری تھیں۔ شیرا ہل کی اَرلی پکڑے ساڑیں لگا رہا تھا۔ ایک جگہ شیرے کا بیل لاکھا اَڑ گیا۔ اِس نے دُم کو مروڑا، چوب ماری، ہشکارابھرامگر وہ سوئر کی طرح وہیں اَکڑ گیا۔ نہ آگے جاتا ہے نہ پیچھے ہٹتا ہے۔مَیں دیکھ رہا تھا اور سوچے جا رہا تھا، لاکھے کی شامت آئی کہ آئی۔ کچھ دیر بعد وہی ہوا۔ شیرے نے غصہ کھا کے لاکھے کی کمر پر یہ زور کی کُہنی ماری کہ اللہ معاف کرے۔ میرے پاؤں کی زمین ہل گئی۔ میں سمجھا زلزلہ آگیا۔ کُہنی کی ضرب سے لاکھا نیچے ہی بیٹھتا گیا۔ تھوڑی دیر بعد جو بے زبان کو ہوش آیا اور سُرت بحال ہوئی تو ایک دم اُٹھ کے بھاگا اور سہ پہر تک ایک ایکڑ زمین تلپٹ کردی۔ کیوں شیرے، بتا نا ذرا اِنہیں وہ قصہ۔
اس بات کو چھوڑو، شمشیر نے بختوکی زنجیر اپنی ٹانگ سے باندھ کر ہاتھوں کو آزاد کیا اور بولا، ایک بار مَیں یونہی پگڈنڈی کنارے جا رہا تھا۔ یہ بھاگاں والی بختو آگے آگے مٹکتی جاتی تھی۔ ہم پگڈنڈی پر تھے اور دونوں جانب اُونچے اُونچے کماد کے کھیت تھے۔ اچانک ایک ہی بارجھٹکا سا ہوا اور میرے دیکھتے ہی بختوغائب۔ چوں تک نہ کی بیچاری نے۔ بس ایک جھپکے کی دیر میں کماد سے بگھیاڑ نکلا اور دیکھتے ہی بختو کو گردن سے دبوچ کر اُسی کماد میں جاگُھسا۔ تمھیں تو پتا ہے میری اِس کرماں والی میں جان ہے۔ مَیں نے آ ؤ دیکھا نہ تاؤ، پیچھے چھلانگ لگا دی۔اب جو دیکھا تو تین تین بگھیاڑ تھے۔بختو بچاری مدھولی جا چکی تھی۔ ایک منٹ مَیں نہ پہنچتا تو اس کی انتڑیاں کماد کی جڑوں سے لپٹی جا چکی ہوتیں۔
جیسے ہی بگھیاڑوں نے مجھے دیکھا، آئے میری طرف۔ یہ بڑے بڑے ڈیلے نکال کر۔ لو جی اُس وقت مَیں نے بھی دلیری پکڑی اور اور بگھیاڑ ہی تو بن گیا۔ خون میری آنکھوں میں اُتر آیا اور جنگ شروع ہو گئی۔ کسی کا پنجہ بچاتا ہوں تو کسی کے دانت۔ ایک بگھیاڑ نے میری لُنگی کو اپنے جبڑوں میں ایسے دبوچ کر کھینچا کہ پَل میں لیرو لیر ہوگئی اور مَیں الف ننگا۔ وہ بچت یہ ہوئی کہ اُس کے جبڑوں میں میرا الف نہیں آیا ورنہ تو میں سرے سے ہی کام سے گیا تھا۔ جو اُن میں سب سے بڑا تھا، اُس کو آخر مَیں نے یہ جھانبڑ لگائی کہ تین قلابازیاں کھا گیا۔ دوسرا سیدھا اُستروں جیسے پنجے اور برچھی کی طرح دانت نکال کر میرے منہ کی طرف آیا۔ میں نے ٹوکی کا وار یوں اُس کے پیٹ میں اُتارا کہ وہ تو خنزیر وہیں ڈھیر ہو گیا۔ ایک جو پہلے والاتھا جس نے مجھے ننگا نچا دیا تھا، اُس کو بائیں ہاتھ سے دھوبی پٹڑا دیا اور دے زمین پہ مارا۔وہ بھی بہت تیز تھے۔ آنکھ جھپکتے ہی دوبارہ حملہ کر دیتے۔
اور تمھاری بختونے ساتھ نہیں دیا؟ غلام محمد نے پوچھا۔
شمشیر ہنس کر بولا، تم بھی بادشاہ ہو بھئی غلام محمد۔ یہ بچاری تو بے سُتی ہوئی پڑی تھی۔ مجھے تو فکر تھا کہیں مر ہی نہ گئی ہو۔ اِ س کو اُس وقت ساتھ دینے کے کہاں ہوش تھے۔ ظالموں نے ایک ہی منٹ میں اِسے رگڑ دیا۔ خیر بھئی، یہ لڑائی دو گھنٹے جاری رہی۔ دو کنال کماد کا صفایا ہو گیا۔ اللہ اللہ کر کے وہ تینوں بگھیاڑ مَیں نے اُسی ٹوکی سے کاٹے۔ میرا اپنا جسم بھی لہو لہان ہو گیا۔ بختوکو اُٹھا کر گھر لایا۔ شوہدی کو شام تک کہیں جا کر ہوش آیا۔
شریف بولا، یہ بات تو ہے شیرے تم میں۔ ہم ہوتے تو وہیں مُوت نکل جاتا اور بختو کو بگھیاڑوں کے صدقے کرکے گھر کی طرف دُڑکی لگا دیتے۔ خدا کی قسم آج راجہ ارجن ہوتا تو تیرا پانی بھرتا اور ہنومان دُم دبائے دبائے پھرتا۔
دلگیر جو ایک طر ف چُپ کھڑا تھا، شریف کی بات سُن کر بولا، واہ شریفے، تُو بھی کتنی اوچھی اور دُور کی کوڑی لایا ہے۔ بھلا ہنومان باندر اور ارجن پلًے دار کا شمشیر سے کوئی میل ہے؟ اپنا شمشیر شیروں کو پھاڑ کھانے والا اور وہ صرف رام کے چیلے چانٹے۔ پھرشمشیر کی طرف منہ کر کے بولا، پر ایک بات تمھیں بھی ماننی پڑے گی شیرے۔ جگرے والا اپنا رفیق محمد بھی بہت ہے۔ چاہے رام لشمن دونوں آ جائیں، ر فیق خاں، علی مولا کا نام لے کر دونوں کو اُنگلی پر اُٹھا لے گا۔ بھائی اُس کے ہاتھ کیا ہیں؟ لوہے کی سیخیں ہیں۔ بس یوں سمجھ لو کہ عزرائیل کے پنجے ہیں۔ جس پر جا پڑتے ہیں روح قبض کیے بِنا نہیں چھوڑتے اور دلیر ایسا کہ نادر شاہ کی فوجوں پر اکیلا جا چڑھے۔ پورا لشکر ایک طرف ہو جائے تو بھی ماں کا جنا پیٹھ دکھا کے نہیں بھاگتا۔
ہاں، غلام محمد بولا، اور مَیں تو کہوں گا، اِدھر اُدھر دس بارہ گاؤں میں تو اُس کے توڑ کا آ دمی کوئی نہیں۔ پندرہ بھینسوں کا چارا تین میل سے سر پر اُٹھا کر لے آئے۔ مجال ہے اُس کی گردن میں موڑ آئے۔
شمشیرخاں کو غلام محمد کی یہ بات اچھی نہ لگی، وہ بولا، یہ کون سا بڑا کام ہے۔ یہ تو میں بھی کر لوں گا۔
دلگیر علی دوبارہ بولا، شمشیر خاں اِس کام میں تو وہ تم سے آ گے ہے۔ یہ تو تم کو بھی ماننا پڑے گا۔ پھرشرارتاً مسکرا کر، شمشیر خاں ویسے تھوڑا تھوڑا تم اُس سے ڈرتے بھی ہو۔
شمشیر خاں غصے سے لال پیلا ہو گیا اور کھینچ کے ایک لمبا ہاتھ دلگیر کے مارا اور سر گھما دیا۔
دلگیر گال لوستے ہوئے بڑ بڑایا، ہمیں کیوں مارتے ہو؟ کمزور پر ہر کوئی ہاتھ اُٹھا لیتا ہے۔ مزا تو جب ہے، رفیق سے پیچا ڈالو۔
حبیب جٹ نے کہا، شمشیر خاں یہ تم نے مَردوں والی نہیں کی۔ بچارے دلگیر کا کیا گناہ ہے؟ اِسے مار لیا دیوار کو مار لیا ایک جیسا ہے۔ درانتی ہرا گاچا تو مزے سے کاٹتی ہے، پکی چری پر چلے تو دانت کھٹے ہو جائیں۔
شمشیر نے شرمندگی سے حبیب جٹ کی طرف دیکھا تو وہ دوبارہ بولا، بات تو شمشیر خاں، دلگیر نے حق سچ کی تھی۔ تمھارا جوڑ اصل میں رفیق سے بنتا ہے۔ ہمارے سر پر تو مفت میں گتکے جماتے رہتے ہو۔
شمشیر خاں اب پوری طرح طیش میں آگیا، بولا، لو مَیں کل ہی فیکے کو چیلنج دیتا ہوں۔پھر جھجکتے ہوئے بولا، پر یہ اچھی بات نہیں۔ وہ ہے میرا یار۔
اب غلام علی نے آگ پر مزید تیل چھڑکا، تو کیا اتنی سی بات سے یاری ٹوٹ جائے گی؟ اگر ایک چیلنج سے یاری ٹوٹتی ہے تو یاری نہ ہوئی، سُوت کا دھاگا ہوا۔
ٹھیک ہے میاں، شمشیر خاں نے اپنے گھٹنے سے بختو کی زنجیر کھولی اوراُٹھ پڑا۔ کل دو پہرصید شاہ کے نیم والے تھڑے پر آ جانا۔ وہیں چیلنج دوں گا۔
نیم کی گنڈولیاں پک کر پیلے رنگ کی ہو گئیں تھیں اور شاخوں پر پتوں کی سبزی چھاؤں کو گُوڑھا کر رہی تھی۔ یہ دن اگست کے شروع کے تھے، جب بارشیں اور حبس پورا مہینہ ایک ساتھ رہتے ہیں لیکن آج خوشگوار دن تھا۔ گاؤں کے بڑے بوڑھے چارپائیاں گھنے پیڑ کے نیچے رکھے، حقے کا دھواں اُڑا رہے تھے۔ ارد گرد بیٹھے لوگ، جنہیں خموش بیٹھ کر تماشا دیکھنے کی اجازت تو تھی، بولنے کی نہیں، وہ خموشی سے دیکھنے لگے۔ رفیق سارے معاملے سے بے خبر تھا۔ شمشیر نے ایک دو دفعہ رفیق کو گہری نظر سے دیکھا اور بولا، فیکے مَیں آج تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ لوگوں کا زبردستی یا چوری چارہ نہ کاٹا کر۔
تمھیں اِس کا ٹھیکہ ہے۔ رفیق شمشیر کی اِس اچانک بے سُری بات پر غصے سے بولا۔
بھئی لوگ مجھے طعنہ دیتے ہیں کہ فیکا تیرا یار ہو کر ہمارا نقصان کرتا ہے۔ تُو اُسے روکتا کیوں نہیں۔
رفیق! تو نہ سُنا کر طعنہ۔ سیدھا میرے گھر کا رستہ بتا دیا کر۔ پھر مَیں جانوں اور وہ۔
شمشیر! اِن مظلوموں کی بات سُننا بھی تو میرا کام ہے۔
شمشیر اِن باتوں سے تیرا مطلب کیا ہے؟ رفیق نے طنزاً مسکرا کر کہا، کیا تو گاوں کا تھانیدار ہے یا دروازے پر عدل کی زنجیر لٹکائی ہے؟ اپنے کام سے کام رکھا کر۔
شمشیر بولا، فیکے میں گاؤں کا تھانیدار یا باتشاہ تو نہیں، پر یہ جان لے، اگر کوئی تیرے علاوہ اِس گاؤں کا نقصان کرتا تو مَیں کب کا اُس کی مونچھیں مونڈ کر اور اُن کی رسی بٹ کراِس نیم کے تنے سے باندھ چکا ہوتا۔
رفیق نے کہا، شمشیر ے تُوکس سے بات کر رہا ہے؟ لگتا ہے آج بھنگ زیادہ چڑھ گئی ہے۔ مَیں تیرے سامنے رفیق خاں فرشتہ بیٹھا ہوں، کوئی پھجا لنگڑا نہیں ہوں۔
مَیں بھی جانتا ہوں تُو اپنا فیکا ہی ہے، وہی فیکا جس نے پورے گاؤں میں اندھیر مچا رکھا ہے۔
رفیق نے اب دھیمے لہجے میں کہا، شمشیر خاں آخر تُو چاہتا کیا ہے؟ کیا مَیں نے کبھی تیرے چارے کو ہاتھ لگایا ہے؟
لگا کے دیکھ لے، شمشیر نے آنکھ میں آنکھ ڈال کر کہا۔
شمشیر آج تُو کدھر سے بول رہا ہے؟
بات یہ ہے فیکے، شمشیر نے آنکھوں کے ڈیلے باہر نکالے اور کہا، کِلے سے بکری کی ٹانگ باندھنا ایک بات ہے اور سرکاری سانڈ کے سینگوں پر ہاتھ ڈالنا دوسری بات۔ مانا کہ گاؤں کا کوئی بندہ تم نے نہیں چھوڑا، جس کا چارہ کاٹ کر نہیں لے گیا اور اُس کی فصل کا اُجاڑا تم نے نہیں کیامگر وہ تو بچارے نری گابھن بھیڑیں ہیں۔ تیرا اُن کے ساتھ مقابلہ اصولی بنتا نہیں۔ چھ انچ لمبی مونچھ پر ہاتھ پھیر کر، جب مانوں، جب تُو میرے گاچے پر درانتی رکھے گا۔ فیکے، بِلی کی مونچھ کا بال کھینچنا مردوں کا کام نہیں، شیر کے دانت گِن کے دکھا، پھر تماشا دیکھ۔
شمشیر کی باتیں سُن کر اور بھرے مجمعے کو دیکھ کر فیکا سمجھ گیا کہ یار لوگوں نے ہوا بھری ہے، اس لیے تحمل سے بولا، شیرے اِس گاؤں میں تُو میرا ایک ہی یار ہے۔اب تیرے کھیت میں چوری کرتے کیا مجھے شرم نہ آئے گی؟ دنیا کہے گی، فیکا یار مار ہے۔
او چھڈ فیکے شیرا، یاری اپنی جگہ، مرد کی مونچھیں اپنی جگہ۔ مَیں جانتا ہوں، تیری زورا وری نے بڑے پہلوانوں کے منہ پھیر دیے، پر میرا دل کر تا ہے ذرا مجھ سے بھی تیری بینڈی پھنسے تو مزا آئے۔ کسی دن میرے چارے کی کرونبلیں کاٹو گے تو لوہے کا کڑیالا منہ میں نہ دیا تو باپو نے شمیشر خان نام نہیں رکھا۔ مَیں سمجھوں گا ماں خیر بی بی کا نہیں، کھوتی کا دودھ پیا تھا۔
رفیق خاں اب غصے سے بولا، شمشیرخان، تجھے پتا ہے، اتنے چیلنج میرا باپ بھی دے تو مَیں اُس کی دُم پیپے سے باندھ دوں۔ پھر بھی تجھے بڑھکیں مارتے خوف نہیں آتا، حقے کا لمبا گھونٹ بھر کر دھواں نتھنوں سے ہلکا کر کے نکالتا ہے، جا، اگر تیری یہی منشا ہے تو فیکے کا تجھ سے وعدہ ہے۔ تیرا کُترا ہوا چارہ لے کر جاؤں گا اور یہ بھی بتا دوں، یہ کام اِسی ہفتے کروں گا۔ اگر غیرت مند ہو تو مونچھ کی حفاظت کرنا۔ میں چارہ لے گیا تو اپنی مونچھ منڈواؤ گے۔
لا ہاتھ، شمشیر نے چیلنج پکا کرنے کے لیے فیکے سے ہاتھ ملایا، اب جو اپنی بات سے پھرے، اُس کی مونچھیں گدھی کے دودھ سے مونڈی جائیں گی۔
پاس بیٹھے سب لوگوں نے گواہی کے طور پر تالی بجائی۔
شرط کو چار دن ہو گئے۔ دونوں کی عزت کا مسئلہ تھا۔ پچھلی رات رفیق نے اپنی شرط پوری کرنے کا ارادہ کر لیا۔ وہ رات کے دو بجے اُٹھا، دھوتی باندھی، چاربَر کی چادر بغل میں دبائی اور شمشیر خاں کے مویشیوں والے باڑے کی طرف چل دیا۔ یہ باڑہ گاؤں سے نصف کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ وہیں چارہ کاٹنے والی مشین تھی۔ شمشیر خاں کا نوکر شام کے وقت تمام چارہ کاٹ کے رکھ دیتا، تاکہ صبح بھینسوں کا دودھ دوہنے کے لیے بھاڑے کی آسانی رہے۔ شمشیر صبح سویرے دودھ لینے کے لیے ایک ہاتھ میں مٹکا اور دوسرے میں بختوکی زنجیر پکڑے باڑے کو روانہ ہوتا، دوپہر تک وہیں رہتا، نوکر کا ہاتھ بٹاتا اور بارہ بجے دودھ لے کر واپس گاؤں آ جاتا۔ بختو ساتھ مٹکتی آتی۔ یہ اُس کا معمول تھا لیکن جب سے رفیق کو چیلنج دیا تھا، یہ دودھ کسی کے ہاتھ گھر بھجوا دیتا اور خود بختو کے ساتھ وہیں راتیں گزارنے لگا۔ ساری رات جاگتا۔ سونے کو اپنے اُوپر گویا حرام کر لیا۔ چارپائی کُترے ہوئے چارے کے بالکل ساتھ رکھ کے لیٹتا۔ پچھلی رات نیند غلبہ کرتی اور آنکھیں زبر دستی بند ہو جاتیں تو اُسے رفیق اپنی چادر میں چارہ ڈالتے نظر آتا، وہ فوراً ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھتا لیکن اِدھر اُدھر کچھ نہ پا کر پھر لیٹ جاتا۔بختو آرام سے چار پائی کے ساتھ بیٹھی رہتی یا آس پاس ٹہل لیتی۔ اگر یہ شرط فیکے کی بجائے کسی اور سے لگی ہوتی تو زیادہ فکر نہیں تھی۔ بختو سب کچھ سنبھال لیتی مگر مصیبت یہ تھی کہ بختو جس قدر شمشیر سے واقف تھی، اِسی قدر فیکے سے بھی تھی۔
آج شمشیر نیند کے غلبے سے اِس قدر بوجھل تھا کہ دن کے وقت بھی نشے کی حالت میں لگ رہا تھا۔ رفیق جس وقت باڑے میں پہنچا، سوائے بختو کے باڑہ سویا ہوا محل بن چکا تھا۔ شمشیر کے خراٹے دغدغہ بجا رہے تھے۔ رفیق نے باڑے کی یہ حالت دیکھی تو ہلکا سا مسکرا دیا۔ پھر چارپائی کے ساتھ پڑا گتکا اور لالٹین اُٹھا کر کماد کے کھیت میں پھینک دی۔بختو نے اُس کی بُو سونگھ لی اور بھاگ کر قدموں سے لپٹنے لگی۔ فیکا آرام سے آگے بڑھا، کُترے ہوئے چارے کے پاس چادر بچھائی، اُس میں چارہ ڈالا، پھر چادر کو چاروں کو نوں سے باندھ کر بھاری پنڈ بنالی اور ایک ہی ہَلے میں اُٹھا کر سر کی طرف لے گیا۔ چارہ سر پر رکھ کر دو قدم چلا، پھر خیال آیا، ایسا نہ ہو شمشیر کہے، اُس کا چارہ چوری ہی نہیں ہوا۔ وہ پیچھے ہٹا، ایک زور کی ٹھوکر شمشیر کی چار پائی کو لگائی لیکن وہ سویا رہا۔ رفیق نے مزید دو ٹھوکریں مار یں، وہ پھر بھی نہ اُٹھا تو اُس نے گٹھٹر ہی اُوپر پھینک دیا۔ گٹھڑ کا گرنا تھا کہ شمشیر کو لگا جیسے بھونچال آ گیا۔ بڑی مصیبت سے اُس کے نیچے سے نکلا اور ابھی نیند اور گٹھڑ کی ضرب سے ہوش بحال بھی نہ ہوئے تھے کہ رفیق نے جلدی سے گٹھڑ دوبارہ سر پر رکھا اور چل دیا۔ کالی رات کا اندھیرا تھااور نزدیک ہی گنے کا کھیت۔ رفیق کھیت میں گھس گیا۔ شمشیر نے اِدھر اُدھر لالٹین کو ٹٹولا مگر وہ غائب تھی۔ غنودگی میں اُسے کچھ نہ سوجھا کہ کیا کرے؟ بختو کو ہشکار کر پیچھے لگایا۔ کُتیا نے شمشیر کے کہنے پر رفیق کا پیچھا کیا مگر پاس پہنچ کر خود بھی ساتھ چلنے لگی۔ شمشیر کو شدید اُلجھن نے گھیر لیا۔
ساری زندگی بختوا ور گتکے کے بغیر ایک قدم نہ چلا اور اب یہ دونوں چیزیں غائب تھیں۔ اُسے رہ رہ کر اپنے آپ پر، اُن لوگوں پر، جنہوں نے شرط لگانے پر اُکسایا، حتیٰ کہ بختو پر، جو آرام سے فیکے کی ڈولی چڑھ گئی تھی، شدید غصہ آنے لگا۔ شمشیر نے کئی باربختو کو ہشکارا لیکن اُس کی آوازنہ آئی نہ خود آئی۔ آخر شمشیر نے تھک کر رفیق کو آواز دی، او فیکے شیرا، جو بھی ہو گیا، ٹھیک ہے، پر بختو کو چھوڑ دے۔
رفیق نے شمشیر کی رُندھی سی آواز سُنی تواُس نے بختوکو چھوڑ کر باڑے کی طرف بھگا دیا اور چارہ لے کر گھر آ گیا۔ شمشیر نے بختوکو دیکھا تو جان میں جان آئی۔ اُس نے چارے پر لعنت بھیجی، بختو کو گود میں لیا اور دوبارہ نچنت ہو کر سو گیا۔
شمشیر صبح اُٹھا تو اُس کی نیند کا نشہ ہرن ہو چکا تھا اور رات کا واقعہ حقیقت بن کر سامنے آگیا۔ اُس نے خجالت سے بچنے کے لیے فیکے کے ساتھ کھلااعلانِ جنگ کر دیا اور کہا، اِس بختوکی اور میرے باپ کی قسم، آج سے مجھ پر لسی حرام ہے جب تک فیکے کو قتل نہ کر دوں۔
ایک شخص ہمت کر کے بولا، شمشیر خاں بختوکی قسم تو خیر ٹھیک ہے لیکن تمھارا ابا تو دس سال پہلے ہی بیل نے سینگ مار کے ما دیا تھا، اُس کی قسم کیسے ہو گئی؟
شمشیر خاں نے جواب دینے کی بجائے اُسے ایک اُلٹے ہاتھ کی دُھول جمائی۔
شمشیر باڑے سے سیدھا صادق لوہار کی دوکان پر پہنچا۔ دوکان کیا تھی، کیکر کی لکڑی کے چار ستونوں پر بانس کے آنکڑے ڈال کر ایک چھپر سا کھڑا کر لیا تھا۔اس کے نیچے آگ کی بھٹی، مختلف لوہے کے اوزار اور دس بارہ مُوڈھے پڑے رہتے۔ صادق دھونکنی کے پہیے کو چکر دیتا رہتا اور لوہا سُرخ کر کر کے کوٹتا رہتا۔ بعض دفعہ وہاں بیٹھا کوئی نہ کوئی چکر گھمانے میں صادق کا ہاتھ بٹا دیتا۔ دوکان پر سارا دن گاؤں کے دس بارہ لوگ بیٹھے سمندر پار کی ہانکتے۔ اِن میں بوڑھے، جوان، ادھیڑ عمر، سبھی ہوتے۔ بوڑھے زیادہ ہوتے۔صادق کی دوکان پر رونق کی سب سے بڑی وجہ وہاں ہر وقت جلتی آگ تھی، جس کے تازہ اور موٹے انگارے اتنے خوبصورت تھے کہ اُنہیں کھانے کو دل کرتا۔ مفت کی آگ اور تازہ حقہ اتنی آسانی سے کہیں میسر نہیں تھا۔اس لیے جو خبر یہاں آتی، ہوا کی طرح گاؤں میں پھیل جاتی اور اُس وقت تک اُس پر تبصرہ چلتا جب تک اُس سے بڑی خبر اُس کی جگہ نہ لے لیتی۔
پچھلے چار دن سے گاؤں میں شمشیر اور رفیق کی شرط ہی زیرِ بحث تھی۔ ہر شخص بلا وجہ پُر جوش تھا۔ کچھ اندازہ نہیں تھا، کیا ہونے والا ہے۔
دونوں برابر جوڑ کے سورمے تھے۔ بس اتنا تھا کہ شمشیر ذرا عقل کا موٹا تھا۔ ہر ایک تذبذب میں تھا، دیکھیں کیا ہو؟ صبح جیسے ہی یہ قصہ صادق لوہار کی دوکان پر پہنچا اور واقعہ نگار نے خوب نون مرچ لگا کر شمشیر کی خجالت بیان کی تو سب دنگ رہ گئے اور بحث چھِڑ گئی کہ شمشیر کی مونچھیں کاٹنے کے لیے کون سی گدھی کا دودھ اور کس نائی کا اُسترا ٹھیک رہے گا۔ حقے کے دھویں کے سائے میں تجویزیں پیش ہونے لگیں۔ اتنے میں اُنہیں شمشیر آتا دکھائی دیا۔ اُسے دیکھ کر سب نے خموشی اختیار کر لی اور بیٹھنے کو جگہ دی۔ اُسے ایسا تاثر پیش کیا کہ اُن کو کسی بات کا پتا نہیں۔ شمشیر نے موڈھے پر بیٹھنے سے پہلے ہی بڑے غصے میں صادق کو مخاطب کیا، اؤے صادق، ہتھوڑے کو ہاتھ سے رکھ اور میری بات سُن، مجھے دس انچ چوڑے پھل کی کُلہاڑی چاہیے، دیگی لوہے کی، وزن اُس کا دس سیر سے کم نہ ہو، تین فٹ لمبے توت کے دستے کی۔ یہ کلہاڑی آ ج شام تک مجھے ہر صورت چاہیے۔
حکم دیتے ہوئے شمشیر کے تیور اتنے بھڑکیلے تھے کہ سب حواس باختہ ہو گئے اورکسی کو شمشیر سے پوچھنے کی طاقت نہ رہی کہ فیکے کے ساتھ کیا بنا؟ صادق لوہار نے ہمت کر کے پوچھا، خیر ہے بھائی شمشیر، اتنے غصے کی کیا بات ہو گئی؟ کُلہاڑی کیا کرنی ہے؟
کیا کرتے ہیں اِس طرح کی کُلہاڑی سے؟ تجھے نہیں پتا؟ شمشیر گرج کے بولا، مجھے لدھو بن کے دکھاتے ہو۔
تم نہیں بتاؤ گے تو کیا مجھ پر وحی اُترے گی، صادق نے ترکی بہ ترکی کہا۔
فیکے کا کِریا کرم کرنا ہے۔ اس کلہاڑی سے اُس کا سر تن سے جدا کر کے چوک والے کنویں کی مہال سے لٹکانا ہے اور سب کو دکھانا ہے کہ شیر اپنے کہے سے نہیں ٹلتے، شمشیر نے یہ جملے اتنی کرختگی سے ادا کیے کہ سب گھبرا گئے۔ اُنہیں گدھی کا دودھ اور اُسترے بھول گئے۔
اُسے کیوں قتل کرنا ہے، کوئی وجہ تو ہوگی۔ صادق لوہار نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
بس ایسے ہی، مرد وجہ نہیں بتاتے، شمشیر نے دو ٹوک جواب دیا۔
لیکن وہ تو تیرا یار تھا۔ یہ ایک دم کیا ہو گیا؟
یار تو تھا لیکن صادق میاں، مَیں نے سوچا، دو شیر ایک جنگل میں نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اب اُس کا مَکًو ٹھپ ہی دینا چاہیے۔ بس تُو آج ہی ایک ستھری سی کُلہاڑی بنا دے۔ اب فیکے کی آ گئی ہے تو شمشیر خاں کیا کر سکتا ہے؟
ایک شخص جو وہاں بزرگ قسم کا بیٹھا تھا، ہمت کر کے بولا، شمشیر خاں ذرا ہوش کر، لڑائی بھڑائی ہوتی رہتی ہے۔ فیکا دل کا بُرا نہیں، اتنا غصہ نہ کھا، ٹھنڈے دل کے ساتھ فیصلہ کر، ویسے اُس نے کام اچھا نہیں کیا۔
چاچا نیاز دین، شمشیر گرجا، اِس سمے تیرے صلاح دینے کا وقت نہیں۔ یہ مشورے تُو فیکے کی قبر کھودنے والوں کو دینا کہ پُتر اتنے گز لمبی کرواوراتنے ہاتھ چوڑی کرو۔ اِس وقت میرے ہاتھ پر نہ بول، یہ جوان مردوں کے کام ہیں بُڈھوں کے نہیں۔
نیاز دین شمشیر کی جھڑک کھا کر چُپ ہو گیا۔ اس کے بعد کسی کو بات کر نے کا حوصلہ نہ رہا لیکن دل ہی دل میں سب خوش تھے کہ اب اِن کی بینڈی پھنسی کہ پھنسی۔ آدھ گھنٹہ سمجھانے اوردس روپے صادق کو پیشگی دینے کے بعد شمشیر چلا گیا۔
رفیق جب دن کے وقت باڑے پر گیا تو وہاں صرف نوکر تھا۔ اُس نے بتایا، شمشیر صبح ہی چلا گیا ہے۔
کچھ دیربعد لوگوں نے رفیق کو بتا دیا کہ شرط تو ایک طرف رہی، شمشیر صادق لوہار کو کلہاری بنانے کی پیشگی دے آیا ہے۔ رفیق سُن کے ہنس دیا اور گھر چلا آیا۔
کلہاڑی بن کر آئی تو شمشیر کے ایک ہاتھ میں بختو کی زنجیر اور دوسرے میں یہ خونخوار قسم کی کلہاڑی رہنے لگی۔ ہر کوئی چمکتی ہوئی ننگی کلہاڑی دیکھ کر دُور سے ہی رستہ بدل لیتا لیکن اب شمشیر کھُلے بازار میں کسی نہ کسی کو پکڑ کر کھڑا ہو جاتا اور اُسے فیکے کے آیندہ ہونے والے قتل کے بارے میں تفصیل سے سمجھاتا۔ ایک ایک پہلو پر سیر حاصل گفتگو کرتا اور افسوس کرتا کہ ایک اچھا بھلا جوان خواہ مخواہ میں اِس دنیا سے اُٹھ جائے گا۔ سامنے والا فرد بھی شیرے کی ہاں میں ہاں ملاتا۔ دو تین روز اِسی طرح گزر گئے۔
ایک دن اسماعیل تیلی نماز کے لیے نکلا۔ عصر کی اذان ہوئی تھی اور اُس نے با جماعت نماز میں شریک ہونا تھا۔ شمشیر کا گھر مسجد کی راہ میں تھا۔ اِس نے گھر سے نکلتے ہی اسماعیل کو آتے دیکھا تو سڑک پر ہی روک کر کھڑا ہو گیا۔بختو کی زنجیر کلہاڑی والے ہاتھ میں پکڑ لی اور زنجیر والا ہاتھ اسماعیل کی طرف بڑھا دیا۔ اسماعیل بے چارا نمازی اور پرہیز گار بندہ، کیا کرے اور کیا نہ کرے؟ سلام لیتا ہے تو ہاتھ پلید ہوتا ہے، نہیں لیتا تو ایک نئی مصیبت۔ آخر دل ہی دل میں خدا سے معافی مانگی اور ہاتھ ملا لیا۔ اُس کے بعد شمشیر نے وہی فیکے والا قضیہ چھیڑ دیا۔
چا چا اسماعیل، اب تُو ہی بتا، کیا کیا جائے فیکے کے معاملے میں؟
اسماعیل، بھئی میری تو صلاح ہے اُسے معاف کر دے۔
شمشیر، یہ تو نامردوں والا مشورہ ہے۔
اسماعیل، تو پھر صلاح کس چیز کی مانگتا ہے؟
شمشیر، یہی کہ اُسے کس چیز سے قتل کروں؟ آخر تم سیانے آدمی ہو، بڑا زمانہ دیکھا ہے۔
اسماعیل، میاں، میں نے زمانہ تو دیکھا ہے پر قتل تو نہیں کیے نا۔
شمشیر، قتل نہیں کیے لیکن اُجاڑے میں قتل ہوتے تو دیکھے ہیں کہ نہیں؟ بس یہ بتا دے، آسان موت کس ہتھیار سے ہوتی ہے؟
اسماعیل، دیکھ شمیشر! ایک تو یہ کہ اُجاڑے میں نہیں دیکھا جاتا تھا، کافر کو کس شے سے مارا جائے کہ اُسے تکلیف کم ہو، دوسری بات یہ کہ تم نے یہ کلہاڑی کس لیے بنوائی ہے؟
شمشیر، فیکے کو قتل کرنے کے لیے۔
اسماعیل، جب تم ایک ہتھیار بنواچکے ہو تو پھر مشورہ کیا دوں؟
شمشیر، لو یہ تو مجھے یاد ہی نہیں رہا۔ اچھا یہ بتا دو، کلہاڑی کس جگہ ماروں کہ اُسے درد بھی نہ ہو اور وہ فوراً مر بھی جائے۔ ذرا تجربے سے بتاؤ۔
اسماعیل، شمشیر کس طرح کی باتیں کرتے ہو؟ تجربے سے تب بتاؤں، جب میں نے کسی کو مارا ہو۔ مَیں نے تو آج تک چوہا نہیں مارا۔ پھر جب تُونے اُسے مارنا ہی ہے، تو اُس کی تکلیف سے کیا مطلب؟
شمشیر، واہ چاچا اسماعیل واہ، فیکا آخر میرا یار ہے۔ اُسے تکلیف ہو گی تو کیا مجھے تکلیف نہ ہو گی؟ چاچا تم نے دلیروں والی بات نہیں کی۔
اشکے بھئی اشکے، اسماعیل نے حیران ہوکر کہا، تیرے جیسے قاتل مَیں نے پہلی بار دیکھے ہیں، جو اونٹ پر تو بیٹھنا چاہتے ہیں مگرکوہان سے ڈرتے ہیں۔ بھئی اگر تم کو اُس کا اتنا ہی احساس ہے تو قتل ہی کیوں کرتا ہے؟ بس جانے دے، جو ہوا سو ہوا۔ اگر تُو اُس کا درد نہیں دیکھنا چاہتا تو اتنے کڑیل جوان کومارتے ہوئے تجھے درد نہیں ہو گا؟ بتا ذرا تیرے کلیجے میں ہُوک نہیں اُٹھے گی؟
افسوس تو مجھے بھی ہے اس بات کا چاچا، شیر جیسا جوان چھوٹی سی بات پر مرنے لگا ہے، پر کیا کروں؟ آخر زبان دے بیٹھا ہوں۔ ویسے بھی سب نے ایک دن چلے تو جانا ہے۔ کوئی دو دن آگے، کوئی دو دن پیچھے، یہ دنیا فانی ہے۔
بھئی میری نما ز چھوٹی جا رہی ہے کوئی فیصلہ کرو۔ اسماعیل نے تنگ آ کر کہا۔
جا چاچا نماز پڑھ، کہیں تیری جنت نہ ہاتھ سے نکل جائے۔حد ہو گئی۔ تم لوگوں کو بندے کی جان کی پروا نہیں، نمازوں کی ہے۔ جا چلا جا۔ غصے سے، اگر فیکا مر گیا تو دیکھوں گا اللہ تیری نمازوں کو کس کھاتے میں ڈالتا ہے۔ اِن نمازوں کے ساتھ ہی دوزخ میں جائے گا۔ شمشیر نے بختو کی زنجیر دوبارہ دائیں ہاتھ میں لی اور راستہ چھوڑ دیا۔
اُدھر فیکا اپنے کام میں لگا رہا۔ اُسے اُس کے بڑے بھائی بشیر احمد نے سختی سے منع کر دیا کہ فی الحال شمشیر سے دُور رہو۔ خواہ مخواہ دنگا مچانے کی ضرورت نہیں۔ بھائی کے کہنے پر وہ شمشیر کے سامنے آنے سے گریز کرتا رہا۔ شمشیر نے جب دیکھا کہ فیکا میرے سامنے نہیں آتا تو وہ مزید بڑھ چڑھ کر اُس کے قتل کے تذ کرے کرنے لگا۔
ایک دن رفیق کا بھائی شمشیر کو سامنے سے آ تا دکھائی دیا، تو شمشیر نے اُسے سلام کیا اور بولا، بائی، اپنا فیکا شیر کدھر ہے؟ کئی دن سے نظر نہیں آ رہا؟
اِدھر گاؤں میں ہی ہے، رفیق کا بھائی بولا، بس بھینسوں کے چارے وارے میں لگا رہتا ہے۔ کیوں، کیا بات ہے؟ خیر تو ہے؟
خیر ہی تو نہیں ہے بائی بشیر۔ بس قسم کھا بیٹھا ہوں اُسے قتل کرنے کی۔
ایں، خیر، بشیر نے حیرانی کا مظاہرہ کر تے ہوئے پوچھا، شمشیر خاں تیرے ہوش تو ٹھکانے پر ہیں؟ کل تک ایک دوسرے کا لقمہ بچاتے تھے۔ ٹھرًا تو نہیں چڑھا رکھا؟
بائی ٹھرًے میں نہیں ہوں، شمشیر نے لجاوٹ سے کہا۔
یہ اچھی بات تو نہیں ہے۔ بشیر اب نے تحمل سے بولا، اگر وہ میرا بھائی ہے تو تیرا بھی یار ہے۔ اُسے قتل کرنے سے تیرا اور میرا نقصان تو برابر ہی ہوگا۔
بائی، بات تیری ٹھیک ہے، پر کیا کروں؟ اُسے قتل کرنے کی زبان دی ہوئی ہے۔ بس اُسی کے ہاتھ سے مجبور ہوں۔ مجھے غصہ آیا ہوا ہے۔ اب تو یہ کڑوا گھونٹ بھرنا ہی پڑے گا۔ بس اللہ سے اُس کی بخشش کی دعا مانگ۔
بشیر، مَیں تو اُس کی زندگی کی دعا مانگوں گا۔
شمشیر اِدھر اُدھر دیکھ کر بولا، اس کا ایک طریقہ ہے۔ اِدھر کان نزدیک کر، اُسے کہو، چار چھ دن گاؤں سے آ گے پیچھے ہو جائے۔ میرا غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو پھر آ جائے ورنہ نقصان بہت ہو جائے گا، دونوں گھروں کا۔
بشیر، بات تو تیری ٹھیک ہے شمشیر خاں مگر تمھاری قسم کا کیا بنے گا؟
تُو اُس کی فکر نہ کر۔ خدا سے مَیں خود بات کر لوں گا۔ یہ میرا اُس کا معاملہ ہے۔ بس کچھ دن کے لیے فیکا شیر یہاں سے چلا جائے تو کوئی حل نکل سکتا ہے۔
بشیر، یہ طریقہ ٹھیک ہے شمشیر، مَیں آ ج ہی اُسے جھوک گھمن بھیج دیتا ہوں مگر اِن بھینسوں کا کیا کروں؟ اگر وہ یہاں سے چلا جائے گاتو اِن کو چارہ کون ڈالے گا؟ میرے تو بس کا روگ نہیں۔
شمشیر کچھ دیر سوچ کر دوبارہ بولا، اِس کا ایک حل ہے۔ اِنہیں میرے باڑے پر باندھ آؤ۔ میرا نوکر اِن کو چارہ ڈال دیا کرے گا۔
بشیر، یہ بات تم نے بہت عمدہ کی۔ مَیں کل صبح ہی رفیق کو گاؤں سے نکال کر بھینسیں تمھارے باڑے میں باندھ آتا ہوں۔
شمشیر نے خوش ہو کر مونچھوں پر ہاتھ پھیرا۔ بختو کی زنجیردوسرے ہاتھ میں کی اور آگے چل دیا۔
اگلے دن عصر کا وقت تھا۔ رفیق کام سے فارغ ہو کر، آرام سے چارپائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ اچانک باہر سے شمشیر کی آ واز آئی، او بئی فیکے شیرا، ذرا باہر آ، ضروری کام آگیا۔ جلدی آ جا۔
آواز میں کرختگی اور اَکھڑ پن ویسا ہی تھا، جس کے سبب رفیق کا بھائی تذبذب میں پڑ گیا۔ رفیق باہر کی طرف لپکا تواُسے روکنے کے لیے بشیر بھی اُٹھ کھڑا ہوا اور کہا! رفیق باہر مت جاؤ۔ مَیں پوچھتا ہوں، کیا چاہتا ہے؟
بائی بیٹھ جا، کوئی بات نہیں، مَیں خود دیکھتا ہوں۔
یہ کہہ کر رفیق بلا جھجک دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ اُس کے پیچھے بشیر بھی دوڑا کہ کہیں ظالم کلہاڑی نہ مار دے۔
شمشیر کے ایک ہاتھ میں وہی صادق لوہار والی کلہاڑی اور دوسرے ہاتھ میں بختو کی زنجیر تھی۔ شمشیر خاں رفیق کو دیکھتے ہی بولا، بھئی فیکے شیرا، بات یہ ہے کہ اپنی بختو، کَت، پر آ گئی ہے۔ سُنا ہے چک بیدی والا میں رنگ علی شاہ کا کُتا بڑا نسلی ہے۔ جلدی تیار ہو، چک بیدی میں رنگ شاہ کے کتے سے بختو پر پھیرا لگوا لائیں۔
رفیق نے پلٹ کر پاؤں میں جوتے اڑسے، صافا سر پر رکھا اور شمشیر کے ساتھ چل پڑا۔
شمشیر نے بختو کی زنجیر اپنے ہاتھ میں رکھی اور کلہاڑی رفیق کو پکڑاتے ہوئے بولا، فیکے شیرا، یہ کلہاڑی تم پکڑو، کمبخت صادق لوہار نے دس کلو لوہا اِسی پر لگا دیا۔ اِسے پکڑے میرے تو بازو آدھے رہ گئے۔ اتنی بھاری کلہاڑی میرے ہاتھ تھما دی، بھلا کوئی پوچھے، مَیں نے دلی فتح کرنی تھی؟
عصر کا سورج بائیں کاندھے پر تھا۔ دن کا اُجالا تھا۔ بادلوں کے گولے سروں پر اُڑرہے تھے۔ دونوں لنگوٹیے بختو کو لے کر گاؤں کے درمیان سے تیز قدموں سے نکل رہے تھے۔