پر جھڑنے کے دن
کتھئی رنگ کے وصل آباد ریلوے سٹیشن پر کھڑے ہوں تو ناک کی سیدھ میں آم کے باغات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ گرمیوں میں یہ باغات پھل سے لد جاتے ہیں اور ٹہنیوں سے سونے کی رنگت والے آم، دھوپ میں پلیٹ فارم پر یوں نظر آتے ہیں جیسے سیاہ وہ گہرے سبزلباس میں گہنوں سے لدی حسینائیں وصل کو آباد کرنے پلیٹ فارم پر آنے کے لیے بے تاب ہوں۔
وصل آباد ریلوے پلیٹ فارم کے سیدھے رخ پر سٹیشن ماسٹر کا دفتر، کنٹرول روم، گودام اور کونے میں مختصر سا مسافر خانہ ہے۔ مسافر خانے سے باہر نکلیں تو سامنے وصل آباد کا قصبہ ہے۔
وصل آباد ریلوے سٹیشن کے پچھواڑے صدیوں پرانا بوہڑ کا درخت ہے۔ جس کی داڑھی زمین پر سجدہ ریز ہے۔ بوہڑ کے بزرگ درخت کے بارے میں بے شمار قصے مشہور ہیں، جسے بیان کرنے کے لیے خدا بخش کی زبان نہیں تھکتی۔
بوہڑ کے پھیلے ہوئے تنے کے ساتھ نانا جی حجام نے اپنی دکان سجا رکھی ہے، جہاں وہ لوگوں کی حجامت بناتا ہے۔ خدا بخش کہتاہے کہ ایک طرف بوہڑ کی داڑھی سجدے میں ہے، دوسری طرف بوہڑ کی بددعا لینے نانا حجام لوگوں کی داڑھیاں صفا چٹ کرنے پر جٹاہوا ہے اسی لیے اس کے دن نہیں پھرتے۔ یہی نہیں بلکہ غیبت کرنے کے لیے اس کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہوئی گناہوں کے ڈھیر لگاتی رہتی ہے۔
دونوں کو ایک دوسرے سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ نانا جی حجام کے ماتھے پر گومڑ ہے جسے خدا بخش برائی کی نشانی کہتا ہے اس کا خیال ہے بوہڑ کی داڑھی زمین پر سجدہ اس لیے کر رہی ہے کہ نانا حجام لوگوں کی داڑھیاں مونڈھنے سے باز رہے۔
بوہڑ کے سائے تلے سگریٹ، پان اور مٹھائی کا کھوکھا، گلاب دین قصاب کی دکان اور موچی کے علاوہ وصل آباد کے بے روزگار نوجوانوں کی سبھا روز جمتی ہے۔
اس قصبے کو آباد ہوئے تین صدیاں ہونے کو آئی ہیں۔ لیکن پچھلے تیس سالوں میں اس کی آباد ی جس تیزی سے بڑھی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے باوجود وصل آباد کا پلیٹ فارم مسافروں سے خالی رہنے لگا ہے۔ ورنہ جن دنوں یہ پلیٹ فارم آباد تھا۔ یہاں کھوے سے کھوا چھلتا تھا اور خدا بخش کے تین ملازم چائے، کھانا دیتے دیتے ادھ موئے ہو جاتے تھے مگر جب سے ریلوے کا پٹرا ہوا ہے۔ یہ پلیٹ فارم آدمی کی ذات کو ترستا ہے۔
وصل آباد ریلوے سٹیشن پر اب نصیبوں ماری تین پسنجر گاڑیاں رکتی ہیں۔ ایک دوپہر سوا گیارہ بجے اور دوسری چار بجے سہ پہر کہنے کو آتی ہیں۔ مگر کئی سالوں سے لیٹ آنا ان کی شناخت بن چکا ہے۔ خدا بخش کے تینوں لڑکے کماؤ پتر ہیں۔ اس لیے ٹی سٹال کے مندے کی اسے پرواہ نہیں۔ خدا بخش باتونی، صابر و شاکر اور پیشن گوئیوں پر زندہ رہنے والا شخص ہے۔
خدا بخش کے ٹی سٹال کے سامنے تین فٹ اونچے تھڑے پر جہان بھر کی الا بلا دھری رہتی ہے۔ ان میں کالے تیتروں کے دو پنجرے کونے میں پڑے رہتے ہیں۔ کالے تیتر، وقت بے وقت بولیں توخدا بخش جھوم اٹھتا ہے۔
ٹی سٹال کی پشت پر سات فٹ اونچی شیشے کی الماری میں پرانے برتن، اونٹ کی کھال والے چار ٹیبل لیمپ اور چھ رنگین پھولوں والے گلدان بھی ہیں۔
دونوں گاڑیاں گھنٹوں لیٹ آتی ہیں۔ اس لیے خدا بخش کا ٹی سٹال بوہڑ کے نیچے تاش کھیلنے والے یا آوارہ نوجوانوں کی وجہ سے چل رہا ہے ۔ خدا بخش چائے کے ساتھ ساتھ اپنی شیریں اور انوکھی باتوں سے لوگوں کو باندھ کے رکھ دیتا ہے۔ اس کی گفتگو میں زور اس وقت پیدا ہوتا ہے جب نانا حجام کی غیبت کی جائے۔
ملا نور دین کے بیٹے فضل الٰہی کو یہ گر معلوم ہے۔ اس لیے سٹال پر آکر نانا حجام کے پھوہڑ پن کی بات کرتے ہی خدا بخش کھل اٹھتا ہے۔
’’نانا، کو پچاس سالوں میں جھوٹ کے علاوہ کوئی کام نہیں آیا‘‘۔
’’تیرے بچے جئیں، سچ کہا، جس روز سے اس نے دوکان کھولی ہے، پلیٹ فارم ویران ہو کر رہ گیا ہے۔ ایسا سبز قدم اور بھورا ہے کہ مت پوچھو۔ جادو، ٹونا بھی کر تا ہے میں نے کس لیے کالے تیتر رکھے ہیں، صرف نانا کے وار خطا کرنے کے لیے‘‘۔
فضل الٰہی مفت کی چائے پی کے اڑنچھو ہو جاتا ہے اور خدا بخش مجال ہے، کبھی رقم مانگے۔
خدا بخش کی ڈھلتی عمر میں خشخشی داڑھی سفید ہونے لگی ہے۔ کھڑی ناک میں اس کا بیضوی چہرہ البتہ اب بھی خوبصورت ہے۔ گھٹنوں میں کچھ دنوں سے زہر بادکی وجہ سے درد رہنے لگا ہے۔ جس کی وجہ سے اس نے اونچی کرسی سٹال میں رکھ لی ہے۔ جس پر بیٹھے وہ تیتروں کے پر جھڑنے کے دنوں میں سخت پریشان رہتا ہے۔ کیونکہ پرندے کریز کریں تو جادو کا اثر ہوجاتاہے۔ جس قدر انہونی، جس کے نصیب میں ہوتی ہے، پرجھڑنے کے دنوں ہی میں ہوتی ہے۔
نکلتی گرمیوں میں جب تیتری نے پرنوچنے شروع کئے تو سٹیشن ماسٹر ملک حاجی نے اسے بتایا کہ چھ ماہ بعد وصل آباد سٹیشن بندہو جائے گا۔
’’ریلوے نے فیصلہ کر لیا ہے۔ خدا بخش اب جانے کا سامان باندھ رکھو، ہر شے خسارے میں جارہی ہے سنتے ہو۔ وصل آباد ریلوے سٹیشن نے فلیگ ہوناہی ہے‘‘۔
کبھی کبھار دہی کے دو کونڈے بھی خدا بخش لے آتا ہے، جس میں سے آدھ کلو تو کھڑے کھڑے حاجی سٹیشن ماسٹر چٹ کر جاتا ہے۔ اس روز بھی میٹھا دہی کھاتے اس نے یہ منحوس خبر دے کر اسے بے ہوش کر دیا۔
’’حاجی تیرا خانہ خراب ہو۔ نمک حرام، یہ ریلوے سٹیشن بند کروا کے تیرے کو کیا ملے گا‘‘۔
وہ بڑبڑاتا ہوا پلیٹ فارم کے جنوب میں شیشم کے درخت تلے سوئے ہڈیوں کے ڈھیر ملنگ کے پاس جا کھڑا ہوا۔
’’بابا سنتے ہو، سٹیشن چھ ماہ بعد بند ہو جائے گا، دعا کر، وصل آباد ، بند نہ ہو‘‘۔
اس نے سرخ بوٹی آنکھوں سے خدا بخش کو گھورا۔
’’جا پرے مر، کہاں کا وصل، وصل سٹیشنوں پر ملتا ہے۔ جا دور ہو جا‘‘۔
ملنگ نے کندھوں پر پھیلی، میلی چکٹ زلفوں میں ہاتھ ڈال کے جواب دیا۔
وہ نامراد لوٹ آیا، سٹال کے سامنے کھڑے ہو کر، تیسری لائن پر مدتوں سے موجود مال ڈبے میں کتوں کو لڑتے دیکھ کر اس کا غم کچھ گھٹ گیا۔ یہ ڈبہ کھڑے کھڑے گل رہا ہے، ریلوے والے شاید اسے بھول ہی گئے ہیں۔ دن میں اس ڈبے کے اندر جہاں بھر کے کتوں کا راج رہتاہے اوررات کو چور، اچکے یہاں آن براجتے ہیں۔
مال گاڑی کے ڈبے کی طرح وصل آباد ریلوے سٹیشن کا نصیبہ بھی جلا ہے۔ مجال ہے کہ کوئی خیر کی خبر یہاں سننے میں آئی ہو۔ ایک ہجر، وصل سے ایسا چمٹ کے رہ گیا ہے کہ وقت تک گاڑیاں بھول بیٹھی ہیں۔ سب کے پر جھڑنے کے دن آن لگے ہیں۔ خدا بخش سوچتاہوا، ان بیس سالوں کو پلیٹ فارم پر ڈھونڈتارہا، جو پلک جھپکنے میں گم ہو گئے۔ شروع کے دن کیسے خوشیوں بھرے تھے۔
کالو کانٹے والے نے پلیٹ فارم پر پھرتے، گہر ی سوچ میں گم خدا بخش کے کاندھے پر ہاتھ مارا۔
’’جانتے ہو، وصل آباد سٹیشن کے دن پورے ہو گئے، جو مزے تم نے لوٹنے تھے لوٹ لیے ، اب یہاں کچھ نہیں رہے گا۔ جانے کی تیاری کرو۔ بہت کما لیا تم نے‘‘۔
’’ہاں سن لیا ہے یار، تم کدھر جارہے ہو؟‘‘
’’کہیں نہیں، بس ذرا خط نانا سے سے بنوا لوں، کیا خیال ہے؟‘‘
’’بنوالو، خط، مگر بدخط بنائے گا۔ بڑی حرامی چیز ہے یہ نانا، بچ کے رہنا، صابر پٹھان کا آدھا کان نہیں کاٹ لیا تھا، یاد آیا؟‘‘
کالو کے علاوہ روزانہ آنے والوں میں سدو مالی اور اس کا بڑا بھائی بکھو بھی ہے۔ سدو کے ساتھ خدابخش کی نہیں بنتی کیونکہ وہ اس کی پیشن گوئیوں کا مذاق اڑاتا ہے۔ البتہ بکھو کو یقین ہے کہ خدا بخش ہر بات جانتا ہے۔ بکھو کے جسم پر سانپ کے کاٹے کے بعد ڈھیلا ڈھالا چمڑا ہی رہ گیا ہے۔ وہ بھینس کی طرح ابلی آنکھوں سے ہر بات کو اپنے اندر اتار لیتا ہے۔ایک ٹانگ پر زور دے کر چلتا ہے۔ یہ لنگ جامن کے پیڑ پر چڑھتے ڈگالے سے گرنے کی وجہ سے ہوا، لمبے ہاتھوں کو گھٹنوں پررکھ کر وہ جہاں زمین پر جگہ ملے،بیٹھ جاتا ہے۔
ہر آدمی سے سراسیمہ بکھو کی زندگی یہی باغ ہے۔ جہاں تر سالوں میں وہ چڑیل، سانپوں اور مزدوری سے لڑتے جیا ہے۔
بکھو اکیلا سامع ہے، جو اس کی ہر بات پر ایمان لے آتا ہے۔ گھٹنوں تک دھوتی باندھے اور کھردرے ہاتھوں میں کھرپا اٹھائے، وہ گاڑی سے اترتے یا پلیٹ فارم پر آتے جس شخص کو بھی تکتا ہے، حیران ہو اٹھتاہے۔
’’یہ بندے کہاں جاتے ہیں، تھکتے ہیں نہیں لالہ خدا بخش؟‘‘
’’بکھو نہ پوچھ، کہاں جاتے ہیں، یہ گاڑی ہے نا، گیارہ بجے والی، سخت بے ایمان ہے، وقت سے روٹھی ہے اور یہ لوگ، انہیں معلوم ہی نہیں کہاں آ، جارہے ہیں۔ سالے بے مقصد، عمریں گنوا بیٹھے ہیں، نانا نائی کی طرح‘‘۔
’’نانا، بئی ایمان ہے‘‘۔
’’شاباش بکھو، تیرے ایمان کی خیر، پورے وصل آباد میں ایک تم کام کے آدمی ہو، مگر کیسے یہ عورت سے ڈر گئے، بتاؤ‘‘۔
’’کیا کہوں، چاند رات کو آجاتی ہے۔ پہلے سدو کے کتے کو مار ڈالا، پھر، مجھے بلاتی رہی، مگر میں کملا تو نہیں نا، میں نے کہا، جا تیری ذات پر لعنت، کلہاڑی دکھا کر بھگایا، چڑیل لوہے سے بھاگتی ہے، یاد رکھو‘‘۔
’’مرن جوگے، بچ اس چڑیل سے، ورنہ مارا جائے گا‘‘۔
’’اچھا‘‘۔
وہ حیرت میں ڈوبا، خدا بخش کو محویت سے تکتا رہتا ہے۔
سدو، انہیں سرجوڑے دیکھ کر جل بھن جاتا ہے۔
’’بکھو، تیری زنانی، خبر لے گی، دن سارا ، پلیٹ فارم پر، کتے کی طرح گزارنے لگے ہو، خدا بخش کی باتوں میں بیٹھے بیٹھے، گل سڑجاؤگے، خانہ خراب، اٹھو، گھر کی راہ لو‘‘۔
بکھو کی ساری کائنات وصل آباد کا یہ ٹکڑا ہے۔ جہاں ہجر ہے نہ وچھوڑا۔ اس لیے سدو کی بات پر دھیان نہیں دھرتا۔ وہ اس کا ازلی دشمن ہے۔ دوسرے دشمنوں میں ریلوے پولیس کا توندیل سپاہی، پسنجر ٹرین کا ٹی ٹی غلام قادر اور کالو کانٹے والا، ان دشمنوں کی وجہ سے اس کی جان پر بن آتی ہے۔ وہ باغ سے باہر نکل کے اچھی طرح یقین کرلیتا ہے کہ کوئی دشمن تو پلیٹ فارم پرموجود نہیں۔ اگر خدا بخش کو ان دشمنوں کے درمیان گھرا پالے، تو خاموشی کے ساتھ باغ میں لوٹ جاتا ہے۔ وہ آم کے پرانے پیڑوں پر شور مچاتے پرندوں کی بولی تک جانتا ہے۔ مگر خدا بخش کے تیتر، دل چیرنے والی آواز میں جادو کس طرح اڑاتے ہیں، اس کی سمجھ اسے نہیں آتی۔
وہ وصل آباد سٹیشن سے گزرتی ایکسپریس گاڑیوں کو بڑی حسرت سے تکتا ہے۔ ایک بار ایکسپریس کے گزرنے پر خدا بخش سے پوچھ بیٹھا۔
’’یہ زمین ہلاتی ٹرین اتنی تیز کیسے بھاگتی ہے۔ لوگ، ڈرتے نہیں؟‘‘
’’لو اور سنو، ابے پاگل خانے، سمندر پار گاڑیاں ایک گھنٹے میں دوسو میل دوڑتی ہیں، تو ان کھٹارا گاڑیوں کو روتاہے‘‘۔
خدا بخش نے زندگی میں پہلی بار، ہنسی میں لوٹ پوٹ بکھو کو دیکھا۔
’’اتنا بڑا جھوٹ بولا تم نے خدا بخش۔ پہاڑ جتنا بڑا جھوٹ توبہ توبہ‘‘۔
’’ارے پاگل خانے، جا، ماسٹر حمید گل سے پوچھ، تیرے کو بتا دے گا، جامر ادھر‘‘۔
بکھو کے پیٹ میں ہنس ہنس کر بل پڑ گئے۔ اصل میں جھوٹ کے اتنے بڑے ٹکڑے کو سمانا، اس کے بس کی بات ہی نہ ہو۔ دو من کے جھوٹ کو ہضم کرنا، مخول ہے، پھٹ نہ جائے پیٹ بندے کا۔
’’سڑی، دماغ پھر گیا ہے تیرا، جا، اپنی کوٹھری میں جا کے، منہ کالا کر ، یا گوڈی کر باغ میں‘‘۔
خدا بخش کا جی چاہا، دوچار مکے، بکھوکی خمیدہ کمر پر مارے۔ مگر اس کے کمائے ہوئے، ڈھیلے پوسٹ پر خاک اثر ہوگا۔
وصل آباد کے پلیٹ فارم پر جو بھی آتا ہے، نرالا ہی آتا ہے۔ اس نے کتنے ہی مردو زن یاد کیے۔ جو بار بار مدتوں آیا کئے اور پھر ان کے خدوخال تک خدا بخش کے ذہن سے مٹ گئے۔ ایک بکھو باقی ہے ہر سردوگرم میں آتارہا ہے۔ بارش ہو، آندھی ہو، وہ دن میں ایک آدھ پھیرا ضرور لگا جاتا ہے، وصل آباد کی آندھیاں کون بھول سکتا ہے۔ اس لیے، پچھلے جمعہ کو جب زرد آندھی اٹھی ہے تو پہلے بوڑھا تیتر آہستہ آہستہ تھکا ہوا بولا۔ خدا بخش کو معلوم ہے یہ غیبی اشاروں کو جاننے والا پرندہ کب آہستہ بولتا ہے جب آندھی آئی ہے توزمین اور آسمان ایک ہو گئے۔ مگر جب زمین اپنے مدار پر آئی ہے تو اس کا دل دھک سے بیٹھ گیا۔
پلیٹ فارم کے ایک کنارے پر گہنوں سے لدی پھندی، پنٹ گوری، عورت بال بکھرائے، خدابخش کو دیکھ کر پہلے مسکرائی اور پھر اشارے سے بلانے لگی۔ اس کے چہرے پر بلاکی کشش تھی، چاہا دوڑ کر اس کے پاس پہنچ جائے۔
’’آؤنا، ادھر تو آؤ‘‘۔
اسے ایک دم دھیان پڑا کہ اتنے زیور پہنے، یہ عورت، آندھی کے تھمتے ہی کہاں سے آگئی، اب جو غور سے دیکھا ہے تو اس کے پیر، پیچھے کی طرف مڑے ہوں۔ وہ سر سے پاؤں تک تھرتھر کانپنے لگا۔
’’الٰہی، خیر، نانا کے جادو کو لوٹا دے۔ یہ کیا بلا ہے پچھل پیری ہے‘‘۔
اس نے کانپتے ہوئے اپنے آپ سے کہا، اور تیزی سے چھری نکال کے اسے دکھائی، لوہا دیکھتے ہی، وہ چیخ مار کر، پلیٹ فارم سے اتر کر، باغ کی سمت دوڑتی ہوئی مڑ مڑ کر اسے تکتی گئی۔
’’یہ نانا حجام کا وار تھا۔ مگر شاباش میرے کالے تیتر، تو نے بچا لیا‘‘۔
دو، دو من کے قدم اٹھاتا، سیدھا حاجی سٹیشن ماسٹر کے دفتر جا پہنچا۔
’’حاجی صاحب، لو، آج پچھل پیری آگئی پلیٹ فارم پر‘‘۔
’’کیا کہتے ہو، خدا بخش، پچھل پیری؟ تمہارا دماغ تو نہیں چل بسا؟‘‘
’’خد ا کی قسم صاحب جی، ابھی ابھی گئی ہے، باغ کی طرف کتنی بار بکھو نے اسے دیکھا ہے، اب کم ذات پلیٹ فارم پر آگئی‘‘۔
اخبار ایک طرف رکھ کر حاجی سٹیشن ماسٹر نے ہاتھ جوڑے۔
’’جا، پاگل مت بنا، سٹال سنبھال، چند دنوں کے بعد کون پلیٹ فارم، کون میں، کون تم اور کون چڑیل؟‘‘
وہ ڈھے دل کے ساتھ، سٹال پر آیا ہے تو تیتر کا پنجرہ سٹینڈ سے گرا ہوا ہے۔ یہ بدشگونی تھی۔
لیکن ، چپ چپاتے، دل پر پتھر رکھ کر خدا بخش نے پنجرہ اٹھایااور دیر تک پرندے سے باتیں کرتا رہا۔ بڈھا کالاتیتر،پروں میں چونچ دبائے، مشکل سے ایک آدھ بار نیم باز نظروں سے دیکھ کر آنکھ میچ لیتا، جیسے کہتا ہو،ہر شے کا موسم بدل رہا ہے۔ تم بھی بدل جاؤ، ورنہ مارے جاؤ گے۔ موت سر پرہے۔ خدا بخش نے پنجرہ، سٹینڈ پر دھرا اور آندھی کے بعد عورت کے قصے کو کتنے دن بھلاتا رہا۔مگر اس بھول کے بیچ وہ یاد کرتا ہے کہ اسے دھوکہ تو نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ پچھلی سوموار کو جب غضب کا جاڑا پڑا ہے، وہ کمبل میں لپٹا، تین عورتوں کو ایکسپریس ٹرین سے اترتے دیکھ کر گھبرا گیا۔ ایکسپریس کراس کی وجہ سے وصل سٹیشن پر رک گئی تھی۔
پچھل پیری کی رشتہ دار تو نہیں، اس نے سب سے پہلے ان کے پیروں پر نگاہ دوڑائی مگر اطمینان ہواکہ ان کے پیر مڑے ہوئے نہ تھے۔ خوشبو میں بسی، وہ سٹال پر کھڑی چائے پیتی رہیں۔
’’سنا ہے، وصل آباد بند ہورہا ہے، فلیگ ہو رہاہے‘‘۔
’’جی ہاں، اب تو چند ماہ رہ گئے‘‘۔
’’پھر تم کیا کرو گے؟‘‘
خدا بخش نے شربتی آنکھوں اور اس بے حد دل لبھانے والی عورت کو جواب دینا چاہا مگر ایکسپریس نے وسل دے دیا اور وہ پرس سے رقم دے کر ٹرین کی طرف بھاگ گئی۔
وصل آباد پلیٹ فارم کی یہی اچھی بات ہے کہ یہاں پر ہر آن نئی بات چلتی رہتی ہے۔ زمین کا یہ ٹکڑا حادثوں او ر انہونی باتوں سے بھرا پڑا ہے۔ اس کا سارا نظام، کسی اور کے ہاتھ میں ہے، حاجی سٹیشن ماسٹر تو محض آتی جاتی گاڑیوں کو جھنڈی دکھا کر رہ جاتا ہے۔
سرما کے ان دنوں میں ، باغ مرجھایا ہوا ہو اور پالے کی وجہ سے اس کے گھٹنوں کے درد میں اضافہ ہوتا گیا، چاہا، بھرا میلا چھوڑ دے اور وصل آباد پلیٹ فارم کو ویران ہونے سے پہلے آخری سلام کرے۔
خدا بخش نے تینوں بیٹوں سے صلاح لی۔ مگر تینوں راضی نہ ہوئے۔ کیونکہ کئی بار یہ فیصلہ ہوا اور وصل آباد کے بند ہونے کے فیصلے پر عمل کا وقت نہ آیا۔
جس صبح، آسمان پر بادل تھے اور یخ ہوا چل رہی تھی۔ وہ سیاہ دھسے میں لپٹا، نو بجے پلیٹ فارم پر پہلی بار صرف ایک تیتر لے کر آیا۔
سٹال کھولتے ہی، تیتر ، گودوں میں اترتی سردی سے بے پرواہ بول اٹھا۔
اس کی مست بولی میں عجب سرور ہو، لگا پوری فضا جھوم اٹھی ہے۔
’’واہ مستانے، واہ ، کیا سریلا بولا ہے، واہ۔ خوش کر دیا آج‘‘۔
اس کی خوشی میں کھنڈت ڈالتا، حاجی سٹیشن ماسٹر جھومتا ہوا آگیا۔
’’خدا بخش، تو، سپیشل آرہی ہے۔ تم دس کلو دودھ اور منگوالو، کرو، موبائل،بیٹے نور الٰہی کو‘‘۔
اس نے حاجی کے کہنے پر موبائل جیب سے نکال کر دس کلو دودھ لانے کے لیے بیٹے کو تاکید کی۔
’’اتنی دیر میں گرما گرما چائے بناؤ، اور سنتے ہو، رات مستی خان کی حویلی میں ڈاکہ پڑگیا‘‘۔
’’مستی خان کے گھر ڈاکہ، ارے ، ارے یہ کیا ہوا؟‘‘
چائے پیتے حاجی سٹیشن ماسٹر نے بتا یا کہ ڈاکو مستی خان کے داماد کو بھی قتل کر گئے اور گھر میں جھاڑو پھیر دیا، عورتوں کو الگ مارا اور بے غیرتوں نے بے آبرو بھی کیا۔
اس کا جی چاہا، دھاڑیں مار مار کے روئے۔ مستی خان جیسے دل گردے اور نیک دل شخص کے ساتھ یہ ظلم ۔ جو دن گزرتا ہے، بری خبر ہی چھوڑ جاتا ہے۔
نور الہٰی نے بھی باپ کو یہی خبر سنائی اور بڑی کتیلی پانی سے بھر کر، چولہے پررکھ دی۔
سپیشل نے بیس منٹ کے بعد آنا تھا۔ خدا بخش نے گھڑی دیکھ کے نور الٰہی سے کہا۔
’’پتر، بسکٹ بھی لے آتے تو اچھا تھا، سپیشل پر آنے والے لوگ بسکٹ ضرور مانگتے ہیں‘‘۔
’’جاتا ہوں بابا‘‘۔
وہ چند قدم ہی چلا تھا کہ آوٹر سگنل پر قیامت خیز دھماکا ہوا۔ سپیشل ٹرین آوٹر سگنل پر ٹریک سے اتر کر زمین میں دھنس گئی تھی اور غبار تھا کہ آسمان کو چھورہا تھا۔ پلک جھپکنے میں پورا وصل آباد آوٹر سگنال کی طرف بھاگ رہا تھا۔ خدا بخش کو زندگی میں پہلی بار ٹی سٹال اور کا لا تیتر بھول گئے۔ وہ دیوانہ وار بھاگتا، الٹی ٹرین میں پھنسے لوگوں کو دیر تک نکالتا رہا۔
واپس آیا تو نور الہٰی سے خدا بخش نے کہا۔
’’آج صبح تیتر کس لیے بولا، میں نے غلط جانا، وہ دے رہا تھا حادثے کی چتاؤنی، لیکن بیٹے، یہ سب کیا ہورہا ہے، حادثے بڑھے جاتے ہیں، ہم سٹال اکھاڑ نہ لیں، اب کیا بچا ہے یہاں؟ اس پلیٹ فارم کے دن گنے جا چکے‘‘۔
’’ٹھیک ہے بابا، ٹھیک ہے‘‘۔
ان کے بولنے کے دوران میں کتنے لوگ سپیشل میں مرنے والوں کے بارے میں باتیں کرتے سٹال پر آتے رہے وہ دودھ جو سپیشل میں آنے والے زندوں کے لیے تھا، اب مردہ تھے۔ اور جو زندہ پی رہے تھے، وہ مردوں سے بدتر۔
خدا بخش نے ٹی سٹال پر آنے والے گھنی مونچھوں کو تاؤ دیتے، سرخ و سپید چہرے والے بھاری بھر کم شخص کے ہاتھ میں سوٹ کیس دیکھ کر سوچا۔
’’یہ، کون ہو، کہیں، مستی خان کے گھر ڈاکے میں شامل ڈاکو تو نہیں؟‘‘
اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب مونچھل نے پوچھا۔
’’یہاں حادثے سے پہلے، باغ کی طرف سے دوڑتی عورت تم نے دیکھی؟‘‘
’’عورت، باغ کی طرف سے آتی ہوئی؟‘‘
’’ہاں ہاں۔ عورت؟‘‘
دونوں نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ اور گھر آکرخدا بخش اسی ادھیڑ بن میں رہا کہ وہ عورت، جسے حادثے سے پہلے سرخ چہرے والے خوفناک شخص نے دیکھا، کون ہو؟‘‘
’’کہیں چڑیل تو نہ تھی؟‘‘
یہ کالے تیتر کے پر جھڑنے کے دن ہوں۔ ہر شے خزاں کے آتے آتے ویران تھی۔ پلیٹ فارم کو خدا بخش روز بھلاتا ہے۔ مگر وہ کس طرح بھول سکتا ہے۔ خدا بخش کو جمعرات کے دن جب بارش تھمی ہے، کیا یاد آیا کہ نور الہی کو لے کر وصل آباد کے اجڑے پلیٹ فارم پر آگیا۔
دونوں باپ بیٹا، کتنی دیر ٹی سٹال کی جگہ کھڑے باغ اور سنسان پلیٹ فارم کو تکتے رہے۔
’’نور الہٰی، دیکھو، وہ پھر باغ سے نکل کے آرہی ہے‘‘۔
’’کون؟‘‘
’’وہی عورت، لیکن اس کے تو بال جھڑ گئے ہیں، عورت دیکھی تم نے ؟ اس کے بال کہاں گئے؟ نانا حجام کے ہاتھ تو نہیں چڑھ گئی‘‘۔
’’کون عورت بابا، کون؟ سامنے باغ کے تو کچھ نہیں، کوئی عورت دکھلائی نہیں دے رہی؟‘‘
خدا بخش کا جی چاہا، زور دار چانٹا، بیٹے کے منہ پر دے مارے۔
’’کیا تم اندھے ہو، بالکل نا بینا ہو تمہیں اتنی بڑی عورت نظر نہیں آرہی ؟‘‘
نور الہٰی نے دور تک نگاہ دوڑائی، خالی بھنڈار، ویران پلیٹ فارم اور باغ کے آس پاس دور دور تک کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہ ہو۔ اس نے دوڑ کر خدا بخش کو دونوں بازوؤں میں جکڑ لیا، کیونکہ زہر باد کے درد کے باوجود وہ بھاگتا ہوا، باغ کی سمت جانا چاہتا تھا۔