فکر اسلامی کی تشکیل جدید اورعلامہ اقبال

فکر اسلامی کا منبع ومصدر قرآن و سنت ہیں ان ہی کی روشنی میں نت نئے مسائل، عصری فلسفہ اور سائنسی رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے فکر اسلامی کی تشکیل نو کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اس مسئلے کوجن مفکرین نے شدت کے ساتھ محسوس کرکے نمایاں رول ادا کیا ان میں علامہ اقبال ؒکا  نام نمایاں و قابل ذکر ہے ۔علامہ اقبالؒ نے عصری مسائل ،جدید فلسفہ حیات اور سائنسی رجحانات کو اچھی طرح سے بھانپ کر عصری مسائل اور نظریات کو مدلل اور معقول جوابات بہم پہنچائے۔ مغربی تہذیب اورعلوم و فلسفہ سے پیدا شدہ تشکیک اور مسائل ، الحادی نظریات ، تعلیم جدید کا روحانی اقدار سے خالی ہونا، امت کے نوجوانوں کا مغربی تہذیب کا دلدادہ ہونا اور اسلام کے علمی ورثہ یعنی قرآن و سنت سے منھ موڑنا ، مذہب کو فرسودہ اور قصئہ پارینہ سمجھنا ، مسلمانوں میں اجتہادی بصیرت کا مفقود ہونا ،اسلام کے حرکی تصور سے روگردانی کرنا اندھی تقلید اور عقلیت پرستی جیسے نازک مسائل چیلنجز کے طور پر نا صرف بر صغیر میں بلکہ پورے عالم اسلام میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل رہے تھے ۔

ان حالات میں اقبال نے ان مسائل کی صحیح تشخیص کرکے امت میں پھیلے ہوئے ان تباہ کن فکری اور عملی برائیوں کو ثبو تاژ کرنے کی قابل قدر کوشش کی ہیں۔ چونکہ اقبال حرکی شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ وہ قدیم وجدید علوم سے مسلّح تھے اس لئے ان چیلنجز کا بخوبی مقابلہ کیا۔  علامہ اقبال ان ممتاز مفکرین ومصلحین میں سے ہیں جنھوں نے بیسوی صدی میں مشرق ومغرب کو اپنے فکر وخیالات سے ہلا کر رکھ دیا وہ صرف انقلابی و فکری شاعر ہی نہ تھے جیساکہ چند روشن خیال دانشوران کے متعلق کہتے ہیں بلکہ وہ تو ایک ایسے جید اسلامی مفکر اور اسکالر تھے جن کو بہت سارے علوم ونظریات پربہت اچھی نگاہ اور درک حاصل تھا ۔ فقہی مسائل سے لے کر سیاسی مسائل تک ان کی نگاہ ،ژرف نگاہی اور اسکالر شپ بہت وسیع تھی ۔انہوں نے مغربی علوم ،قرآن و حدیث ،فقہ اور تاریخ کا براہ راست مطالعہ کرکے اپنی فکری جہت کو وسعت دی۔

اقبال نے اسلامی فکر کو نئے قالب میں ڈھالنے کا کام عمدہ ، بہترین اور بڑے سائنٹفک اسلوب میں کیاہے ۔ نذیر نیازی جنہوں نے Reconstruction of religious thought  کو اردو جامہ پہنایا۔ لکھتے ہیں کہ اقبال نے اسلامی الٰہیات کی تشکیل جدیدمیں سب سے اہم اور نایاب رول ادا کیا ہے۔

اقبال نے جب اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے یورپ کا رخ کیا تو وہاں کی روشن خیالی، تہذیبی چمک دمک اور متنوع افکار ونظریات اقبال کی آنکھوں کو خیرہ نہیں کر سکے ۔ بلکہ ان گندگیوں سے بچتے ہوئے انہوں نے مغرب و یورپی تحقیق و تعلیم اور سائنس سے بھر پور استفادہ کیا اور دوسروں کو بھی اس سے مستفید ہونے کی دعوت دی ۔ ان کے یہاں مغربی علوم سے استفادہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ ان میں لچک کا پہلو نمایاں ہے۔اس کے علاوہ علامہ اقبال ؒ مغربی علوم ، خدمت خلق، محنت اور پابندی وقت وغیرہ کا بھی اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اقبال مغربی علوم فنون، الحادی نظریات ، مذہب بیزاری،حیا وپاک دامنی سے محروم تہذیب اور ان کی جملہ خرابیوں کا بھی پردہ چاک کیا ۔ اقبال ان مفکرین یا دانشواروں میں سے نہیں ہیں جنہوں نے مغربی فکر و تہذیب کو من وعن قبول کر لیااور اس کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔اقبال نے یوروپی و مغربی فکر وتہذیب کی تہہ میں جاکر ان کے علوم وفنون کو پڑھا،سمجھا، پرکھا،جانچا اور پھر مدلل اور بے لاگ تبصرہ و تنقید کی۔اس سے بھی بڑھ کر دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے مغرب اور اس کی تہذیب ومعاشرت اور تاریخ کا گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ہمہ جہت مشاہدہ اور مطالعہ کرنے کے باوجود مغرب زدگی سے اپنے  دامن کو ہمیشہ محفوط ومامون رکھا ۔ سید مودودیؒ ان کے متعلق رقمطراز ہیں :

’’مغربی تعلیم اور تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا ، اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ پایا گیا اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا ، اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا ۔یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہو چکا تھا ۔اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیںرہاوہ جو کچھ سوچتا تھا ، قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا‘‘۔

شاہین کی صفات ان کی زندگی میں پیوست تھیں۔ گفتار وکردار کے وہ حقیقی غازی تھے۔ احیائے اسلام یااسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ہر وقت فکر مند رہتے تھے ۔ اس کی مثال ان کی شاعری اور خطبات میں جگہ جگہ ملتی ہے ۔نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو ان کی زندگی کا نمایاں وصف تھا۔ علامہ اقبال کبھی بھی پرواز سے نہ تھکے، چیتے کا جگر اور شاہین کا تجسس جیسی صفات سے لیس ہو کر آسمان کی بلندیوں کو مسلسل چھوتے رہے ۔  

اسلام اور ہمہ گیر یت :

اسلام ایک جامع اور مکمل نظام زندگی ہے اس میں کسی قسم کا نقص یا کمی نہیں پائی جاتی۔علامہ اقبال ؒ اسلام کو مکمل نظام ز ندگی کے طور پر ہی پیش کرتے ہیں اور ہر مسئلہ کو چاہے وہ سیاسی ہو ، سماجی ومعاشرتی مسائل ہوں یاا قتصادی مسائل ہوں یا روحانی ،قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اسلام کے عالم گیر پیغام جو کہ اس وقت مقامیت کے خول میں گم ہو کر رہ گیا ہے۔ اس پر اقبال اپنی تشویش کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ ’’توحید کی تعلیمات شرک کے دھبّوں سے کم و بیش آلودہ ہو گئیں ہیں ۔اسلام کے اخلاقی ادرشوں کا عالم گیر اور غیر شخصی کردار مقامیت میں گم ہو گیا ہے ۔ہمارے سامنے اب ایک ہی کھلی راہ ہے کہ اسلام کے اوپر جمے ہوئے کھرنٹ کو کھرچ ڈالیں جس میں زندگی کے بارے میںاساسی طور پر حرکی نقطہ نظر کو غیر متحرک کر دیا ہے اور یو ںو ہ اسلام کی حریت مساوات اور یکجہتی کی اصل صداقتوں کو دوبارہ دریافت کرلیں‘‘۔ان کے یہاں اسلام کا تصور حیات جامد Stagnant)) نہیں بلکہ متحرک ہے اسلام کے اس وصف کو اقبال نے نمایاں طور پر واضح کیا ۔

دین وسیاست میں جدائی:

 وہ سیاست اور اسلام کو ایک اکائی کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے سے جدا  ئی چنگیزیت سے تعبیر کرتے ہیں۔سیاسی نظام کا پہلو دین اسلام کے تابناک اجز امیں سے ایک نمایاں جز ہے۔اس جز کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اقبال نے سیاسی نظام کے رہنما اصول بھی پیش کئے ہیں اور قانون سازی کے لئے وہ قرآن، حدیث ،قیاس اور اجماع کو بنیادی ماخذ کے طور پر گردانتے ہیں۔اس میں انہوں نے قدیم علماء کی روش کو برقرار رکھا ہے ۔اسلام ایک ناقابل تقسیم حقیقت ہے جسے دنیوی اور اخروی خانوں میں بانٹانہیں جاسکتا ہے ۔ چنانچہ اقبالReconstruction of  religious thought in Islam میں واضح طور پر لکھتے ہیں۔’’اسلام میں روحانی اور مادی دو الگ الگ خطے نہیں ہیں ۔قرآن کی رو سے حقیقت مطلقہ روحانی ہے اور اس کی زندگی زمانی فعالیت سے عبارت ہے روح کو فطرت مادیت اور دنیوی امور میں ہی اسے اظہار کیلئے مواقع ملتے ہیں ۔ اس طرح یہ دنیوی بھی اپنی ہستی کی اساس کے طور پر روحانی ٹھہرتی ہیں‘‘۔

دین وسیاست کی علیحدگی کا فتنہ بیسویں صدی کے نصف پر عروج پر پہنچ گیا اس میں جن دو اشخاص نے نمایاں رول ادا کیاان میں مارٹن لوتھر کنگ اور لارڈ میکاولے قابل ذکر ہیں ۔ ان دونوں نے روح اور مادہ اوردین وسیاست کے درمیان تفریق کر ڈالی انہی سے متاثر ہو کر مسلم دانشوروں اور علماء نے تتبع کی راہ اختیار کی اوران حالات میں اقبال نے بادشاہت وملوکیت وجمہوریت اور دین وسیاست کی علیحدگی کے اس فتنہ پر کاری ضرب لگائی۔علامہ فرماتے ہیں:

جلال پاد شاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

 جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اس کے ساتھ ساتھ اقبال دین وسر مایہ ،دین وملک اور جسم و تہذیب کے درمیان علیحدگی کو بھی رد کر دیتے ہیں۔

ہو ئی دین ودولت  میں جس دم جدائی

ہو اس کی امیری ہو اس کی وزیری

دین ایک اکائی ہے  :

اقبال دین کو اکائی کی حیثیت سے مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں اور وہ اس کے درمیان تفریق کے بالکل خلاف ہیں۔اس حوالے سے اقبال اپنے ایک لیکچر میں فرماتے ہیں:

Islam does not bifurcate unity of man into an irreconcible duality of sprit and matter .In Islam God and the universe  sprit and the matter ,church and the state  are organic to each other .(speeches and statement of Iqbal)

 فکر اسلامی کے لئے منصوبہ:

اقبال نے فکر اسلامی کی تشکیل جدید کے لئے ایک منصوبہ بنایاتھا جس کی تکمیل کیلئے انہوں نے ایک ایسا ادارہ(academy) جس میں ایسے مخلص نوجوان اسلامی ماحول میں رہ کر مختلف علوم میں مہارت حاصل کرکے مختلف علمی فیلڈ میں تحقیقی کام کر سکیں ۔اسی کام کے لئے انھوں نے سید مودودیؒ کو بھی خط لکھا تھا ۔جس میں انھوں نے سید مودودیؒ کو حید راآباد سے دار الاسلام آنے کی دعوت دی تھی ۔ سید مودودیؒ نے بھی اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے ہاں کر دی اور دار الاسلام آنے کے لئے تیاری کرنے لگے اسی دوران سید نذیر نیازی کاخط مولانا کو ملا جس میں یہ لکھا ہو اتھا کہ جس قدر ممکن ہو ، لاہور آئیے کیونکہ اقبال کی صحت اچھی نہیں ہے ‘‘۔لیکن بد قسمتی سے اس خط کے تیسرے روز اقبال خالق حقیقی سے جا ملے اس طرح سے اسلامی اکیڈمی جو اقبال کے خوابوں کا مرکز تھا شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔(خطوط مودودی)

تیرے ضمیر پے جب تک نہ ہو نزول کتاب

اقبال کو قرآن مجیدسے بے پناہ لگاؤاور قلبی وابستگی تھی انہوں نے قرآن حکیم کی فکر کو فوکس پوائنٹ بنا رکھا تھا ۔وہ قرآن حکیم سے براہ راست استفادہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور اس بات کا واشگاف الفاظ میں اعلان کرتے ہیں۔ 

تیرے ضمیر پے جب تک نہ ہو نزول کتاب

گرہ کشا ہے رازی نہ صاحب کشاف

مطالعہ قرآن کے حوالے سے کہتے ہیں کہ حق بات یہ ہے کہ جب ہم وید، انجیل وغیرہ کا مطالعہ کرنے کے بعد قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا خیالات کی ایک نئی فضا میں داخل ہو گئے ہیں افسوس کہ مسلمانوں کو قرآن کی جدت کا احساس نہ ہوا ( علامہ اقبال شخصیت اور فن)مقدمۃالقرآن کے نام سے اصول تفسیر پر ایک کتاب بھی لکھنا چاہتے تھے ۔ لیکن زندگی نے وفا نہیں کی اس لئے یہ خواب بھی ادھورا ہی رہا ۔اس کتاب کے حوالے سے ان کا تصور یہ تھا کہ یہ وہ کتاب ہو گی جو یورپ کے تمام نظریات کو توڑ پھوڑ کے رکھ دے گی ‘‘۔اقبال کے نزدیک قرآن مجید کی اصل غایت آدمی اور کائنات کے متنوع تعلقات کا شعور پیدا کر نا ہے۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن خدا اورکائنات کے ساتھ انسان کے تعلق کا اعلی شعور پیداکرتا ہے ‘‘۔ (تشکیل جدید الہیات)خدااور بندے کے درمیان تعلق اسی وقت استوار ہو سکتا ہے جب وہ قرآن میں غوطہ زن ہو کر اس کے اسرارو معارف کے خزانے حاصل کرے اسی لئے وہ دعا گو بھی ہیں کہ :

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

اللہ کرے تجھ کو ہو عطا جدت کردار

 اٹھ کہ ا ب بزم جہاں کا اورہی انداز ہے:

اقبال بندوں کو بندوں سے جوڑنے کی تلقین کرتے ہیں پھر بندوں کو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے پرز ور دیتے ہیں۔ وہ نا صرف سیاسی غلامی ،مغربی فکر و تہذیب کی غلامی، رنگ ونسل کی غلامی، وطن کی غلامی، باطل افکار ونظریات کی غلامی اور تقلید محض کی غلامی سے بلکہ اپنے جیسے انسانوں کی بھی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی بہت تاکید کرتے ہیں کیونکہ ان کو اس بات پر یقین محکم تھا کہ غلامی ہی ایک ایسی لعنت ہے جس میں قوموں کا ضمیر بدل جاتا ہے اور ضمیر فروشی کا کار بد انجام دے کر کوئی بھی قوم یا ملت تخلیقی صلاحیتوں اوراجتہادی بصیرت اورزمانہ شناسی، ستاروں پر کمند ڈالنے اور مستقبل کی تعمیر کرنے سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ اس لئے اقبال ملت اسلامیہ کوجملہ غلامیو ں سے چھٹکارا حاصل کرنے پر بار بار ابھارتے ہیں اور صرف اور صرف خدائے لاشریک کی غلامی اور فرمابرداری کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہی غلامی وبندگی سے انسان کو نجات مل سکتی ہے ۔

غلا مانہ ذہنیت اورغلا مو ں کو غلامی کے خلاف اس طرح سے ابھارتے ہیں:

گرماؤں غلاموں کا لہو سوز یقین سے

کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑادو

اٹھ کہ اب بزم میں جہاں کا اورہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

اجتہادکی ضرورت اور اہمیت:

اقبال اسلامی قانون کی تدوین نو یا تشکیل جدید کی پر زور وکالت کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک اسلامی فقہ کسی جامد و ساکن اور میکانکی(Mechnaical ) کانام نہیں بلکہ اس میں مسلسل نمو و ارتقا ء اور حرکیت جیسی خصوصیات موجود ہیں ۔اسلامی فقہ کی تدوین نو اسلام کی سب سے بڑی خدمت سمجھتے تھے ان کاماننا ہے کہ عصر حاضر میں قدیم فقہی مواد میں نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ا قبال اجتہاد کی اہمیت وافادیت پر بہت زوردیتے ہیں وہ انفرادی اجتہاد کے بجائے اجتماعی اجتہاد کے حامی ہیں۔ اس کے علاوہ اقبال فقہ و قانونِ اسلامی کی اصلاح (Reformation) کے بجائے اس کی تشکیل جدید Reconstructionکا تصور پیش کرتے ہیں ۔(اقبال کا تصور اجتہاد از محمد خالد مسعود)خطبات میں وہ لکھتے ہیں کہ’’ اجتہاد کی یہ آزادی کہ ہم اپنے شرعی قوانین کو فکر جدیدکی روشنی میں اور تجربہ کے مطابق از سر نو تعمیر کریں بہت ناگزیر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اسلامی قانون کی اصطلاح میں اجتہاد کا معنی وہ کوشش ہے جو کسی قانونی مسئلے میں آزادانہ رائے قائم کرنے کے لئے کی جائے۔

مرعوبانہ ذہنیت پر وار:

۱۸۵۷ء کے بعدبر صغیر میں مسلمان نہ صرف ذ ہنی غلام ہوچکے تھے بلکہ سیاسی طور پر بھی انگریزوں کے مکارانہ سیاسی چالوں میں پھنسے ہوئے تھے ۔ برصغیر میں مسلمان سے مایوسی اور نا امیدی کے ساتھ ساتھ جمود و انحطاط کے بادل چھٹتے نظر نہیں آرہے تھے۔ اقبال مرعوبانہ ذہنیت کے شکار علما ء اور نوجوانوں پر کھل کر تنقید کرتے تھے ۔غیر اسلامی افکار ونظریات میں مبتلا نوجوانوں کو اسلامی نظریہ حیات کو اپنانے کی پر زور دعوت دیتے تھے پلٹنا جھپٹنا اور جھپٹ کر پلٹنے کی تلقین کرتے تھے پھر ان کو ستاروں پر کمند ڈالنے کے لئے کہتے ہیں ۔

مغربی تہذیب سے گریز کی راہ:  

مغربی فکر وتہذیب پر انہوں نے تحلیلی تجزیہ کرکے اس کی جملہ خرابیوں کو بھی پوائنٹ آؤٹ کیا ہےاور ساتھ ساتھ امت مسلمہ کو مغرب کی فکر وتہذیب سے گریز کی راہ اختیار کرنے سے زبردست اجتناب برتنے کی تلقین کی ہے ۔ اس پر وہ بات ختم نہیں کرتے بلکہ وہ اس تہذیب کو اپنانے پر اس کو ذلت کے مترادف قرار دیتے ہیں۔بقول ڈاکٹر علی شریعتی:’’اقبال نے سب سے پہلے مشرق ومغرب دونوں کا فکری تحلیل و تجزیہ کیا اور دونوںکے طرز زندگی اور تہذیب وتمدن کا موازنہ کرتے ہو ئے اس نتیجہ پر پہونچے کہ مشرق نے حق کو تو دیکھا مگر دنیا کو نہیں دیکھامغرب نے ، دنیا کو دیکھا مگر حق سے گریزاں رہااس کے بعد وہ اعلان کرتے ہیں کہ مغربی تہذیب وتمدن کے سامنے سر تسلیم خم کر دیناذلت کا بھی فعل ہے اور مغرب کی غلامی کا بھی‘‘۔(اقبال مصلح قرن آخراز ڈاکٹر علی شریعتی)

موجودہ نظریہ تعلیم پر تنقید:

اقبال ایک بہترین ماہر تعلیم بھی تھے ان کا تعلیمی نظریہ بہت واضح اور منقح تھا۔ا نہوں نے جدید اور مغربی نظام تعلیم کابھر پور تنقیدی جائزہ لیا جو ہمارے لئے رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے ۔ رائج نظام تعلیم جو ہر سو الحاد اور غیر اسلامی نظریات پھیلا رہا ہے۔ اقبال نے اس سے سخت بیزاری ظاہر کی کیونکہ اس نظام تعلیم سے ترقی کے ساتھ ساتھ الحاد خوب پنپ رہا ہے :

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے

مگر لب خنداں سے نکل جاتی ہیں زیاں بھی ساتھ 

ہم سمجھتے تھے لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی چلا آئے گاالحاد بھی ساتھ

 مغرب سے برآمد شدہ نظام تعلیم ہمارئے نوجوانوں کوتعلی پسندی ،تکبراور خود پسندی کے سوا کچھ نہیںدیتا چنانچہ فر ماتے ہیں:

تعلیم مغرب ہے بہت جرأت آفریں

پہلا سبق ہے بیٹھ کے کالج مار ڈینگ

رائج نظام تعلیم میں اقبال کے نزدیک ایک اور خرابی یہ بھی ہے کہ یہ نوجوانوںاور طلبہ کو فکر معاش میں مبتلا کر دیتا ہے اور اسی فکر معاش میں وہ مال و زر کا ہی ہو کر رہ جاتاہے ۔

 عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے

قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکر معاش

جب یہ نظام تعلیم ایک طالب علم کو جدائی کا سامان بہم پہنچاتا ہے تو اس کے فتنہ بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی :

اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ

اولاد بھی املاک بھی جاگیر بھی فتنہ

اسکولوں اور کالجوں سے جو تعلیم ملتی ہے وہ روحانی تسکین کے بجائے صرف مادی ضروریات کو پورا کر تی ہے۔ رائج تعلیمی اداروں سے سوز وگداز ، فکرو عمل ،خلوص ومحبت، جفا کشی اور معرفت الٰہی سے خالی ہیں۔ چنانچہ اقبال انہی مدرسوں اور کالجز کے بارے میں اس طرح سے افسوس ظاہر کرتے ہیں۔

اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک                                    

نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ

اوردوسری جگہ کہتے ہیں۔

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا  

کہا ں سے آئے صدا لا الہٰ الااللہ

غرض اقبال کی فکر عصر حاضر میں کافی اہمیت وافادیت کی حامل ہے ان کی فکر سمجھنے کے لئے ہمیںان کے افکار و نظریات کا بھر پور مطالعہ کر نا چاہیے۔