اسیس سولر پاور سسٹم کیا ہے اور خلا سے کیسے بجلی حاصل کی جاسکے گی؟

جاپان نے خلائی سیٹلائیٹ سے خودکار طریقے سے بجلی  (اسپیس سولر پاور) پیدا کرنے کے منصوبے کا افتتاح کردیا ہے۔ شنید ہے کہ 2025 تک اس منصوبے کو مکمل کرلیا جائے گا۔جاپان اس نوعیت کے منصوبے پر کام کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہے۔ کیا واقعی مستقبل میں خلا سے بجلی حاصل کی جائے گی؟ اسپیس سولر سسٹم کیسے کام کرتا ہے؟ کیا پاکستان کا بجلی کا بحران اسپیس سولر پاور سے حل کیا جاسکے گا؟ آئیے اس حیر ت انگیز سائنسی کارنامے کی کھوج لگاتے ہیں؟

اسپیس سولر پاور سسٹم کیا ہے؟

زمین پر توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران کی  وجہ سے ماہرین اب یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ہمیں اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کائنات میں موجود دیگر اجسام سے توانائی حاصل کرنے پر غور شروع کر دینا چاہئے۔اگرچہ شمسی توانائی کا حصول بھی اسی کی ایک شکل ہے لیکن ہم اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ  چند عشروں میں ہم خلا سےمطلوبہ توانائی کے حصول کو ممکن بنا لیں گے۔ یہ تکنیک "اسپیس سولر پاور  سسٹم" (SSPS) کہلاتی ہے۔

اس تکنیک کی مدد سے ایسے خلائی سیٹلائٹس مدار میں بھیجے جائیں گے جو سورج کی توانائی کو جذب کریں گے اور پھر اسے مائیکرو ویو ریڈی ایشن کی شکل میں نیچے زمین پر بھیجیں گے۔ یہ عمل جیو سٹیشنری سیٹلائٹس کی مدد سے مکمل کیا جائے گا۔ جیو سٹیشنری  مصنوعی سیٹلائٹس زمین کے اوپر 22000 میل کی بلندی پر موجود ہوتے ہیں، جہاں وہ زمین کے لحاظ سے ساکن ہوتے ہیں، کیونکہ وہ زمین کے گرد اسی رفتار سے گردش کرتے ہیں، جس رفتار سے زمین اپنے محور پر گھومتی ہے۔ چونکہ خلا میں زمین کی سطح کی نسبت، سورج کی روشنی کی شدت آٹھ گنا زیادہ  ہوتی ہے، اس لیے وہاں پر زیادہ  توانائی کے حصول کا ایک امکان پیدا ہو جاتا ہے۔

اسپیس سولر پاور سے کتنی توانائی پیدا کی جا سکتی ہے؟

"واشنگٹن پوسٹ" کے  ایک سائنس فکشن مصنف بین بوا نے حساب لگا کر بتایا  ہے کہ کسی سولر پاور سیٹلائٹ کے ذریعے کس قدر توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کا اندازہ تھا کہ ایسا کوئی سیٹلائیٹ 5 سے 10 گیگا واٹس کی بجلی پیدا کر سکتا ہےجو کسی  کوئلے والے روایتی بجلی گھر  کی پیداوار سے کہیں زیادہ ہےاور اس کے ایک کلو واٹ آور پر محض 8 سے 10 سینٹ تک کی لاگت آتی ہے۔ یعنی یہ ایک اچھا متبادیل ذریعہ توانائی ہے۔ تاہم ایسا کوئی  سیٹلائیٹ کئی کلومیٹر رقبے پر مشتمل ہو گا اور اس پر ایک ارب ڈالر تک کی لاگت آئے گی،جو کسی نیو کلئیر پاور پلانٹ کی لاگت کے برابر ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو شروع کرنے کے لئے، اس نے انتظامیہ کو مشورہ دیا کہ ابتدائی طور پر ایسا سیٹلائیٹ لانچ کیا جائے جو 10 سے 100 میگا واٹ کی بجلی پیدا کر سکے۔

جاپان  سپیس سولر پاور منصوبہ بنانے والا پہلا ملک

جاپان کی حکومت نے  ایسے ایک  منصوبے پر باقاعدہ تحقیق شروع کر دی ہے۔ جاپان کی ٹریڈ منسٹری  فی الحال اسپیس سولر پاور سیٹلائیٹ سسٹم کے اخراجات کا حساب لگارہی ہے۔ مٹسوبشی الیکٹرک اور دیگر جاپانی کمپنیوں نے باہم مل کر 10 بلین ڈالر کا ایک پروگرام بنایا ہے جس کے تحت ، خلا میں ایک ایسا سولر پاور اسٹیشن بھیجا جائے گا جو بلین واٹس کی توانائی پیدا کر سکے گا۔ اس کا رقبہ 1.5 مربع میل ہو گا اور یہ سولر سیلز سے ڈھکا ہوا ہو گا۔ یہ طریقہ بظاہر کسی سائنس فکشن فلم کی طرح ہی لگتا ہے۔ تاہم خلا میں سولر پاور کی پیداوار ،اگلی صدی میں توانائی کے حصول کا ایک اچھا  طریقہ ہے۔ کیونکہ تب تک رکازی ایندھن شاید ختم ہو چکا ہوگا۔ تاہم اس عظیم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے معاملے میں جاپانی حکومت خود بھی بہت محتاط ہے۔ ایک تحقیقی ٹیم پہلے  اس منصوبے کی افادیت اور معاشی اخراجات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے۔ اس  کے بعدجاپانی ٹریڈ منسٹری اور جاپان ایرو اسپیس ایکسپلوریشن ایجنسی تجرباتی طور پر ایک چھوٹا سیٹلائیٹ بھیجنے کی منظوری دے گی تاکہ خلا سے زمین پر توانائی بھیجنے کے عمل کا جائزہ لیا جا سکے۔  

جاپانی اسپیس ایجنسی کے مطابق جاپان 2025 تک اپنا پہلا آزمائشی "سولر پاور اسپیس سیٹلائیٹ"   خلا میں روانہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس معاملے میں اصل مسئلہ سائنسی نہیں بلکہ معاشی نوعیت کا ہے۔ کیونکہ ایسا کوئی بھی جیو سٹیشنری سیٹلائیٹ خلا میں 22000 میل کی بلندی تک پہنچانا ہو گا اور اس عمل پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے۔ (عمومی سیٹلائٹس 300 میل کی بلندی پر گردش کرتے ہیں)۔

امید کی جا رہی  ہے کہ جاپان کا یہ منصوبہ صدی کے وسط تک مکمل طور پر  لانچ کر دیا جائے گا، تاہم اگر بوسٹر راکٹ کے مسائل موجود رہے تو یہ منصوبہ شاید صدی کے آخر تک جا سکتا ہے کہ جب راکٹوں کی نئی نسل لاگت کو کم کر دے گی۔

کیا یہ منصوبہ کامیاب ہوپائے گا؟؟؟ اس منصوبے پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔۔۔؟ یہ خدشات کیا ہیں۔۔۔ان میں کتنی سچائی ہے؟

اسپیس سولر پاور کی تیاری میں بڑی رکاوٹ کیا ہے؟

موجودہ حالات میں "اسپیس سولر پاور" کی اہم رکاوٹ ، ان سیٹلائٹس کی خلا میں روانگی کی  بہت زیادہ لاگت ہے۔ سورج کی روشنی سے توانائی کے حصول میں بڑا مسئلہ یہی معاشی اور تکنیکی اخراجات ہیں۔ تاہم آئندہ چند عشروں میں خلائی سفر کے اخراجات میں کمی  کے نئے طریقے متعارف ہو جائیں گے، جس کی وجہ سے ایسے سیٹلائٹس کو خلا میں بھیجنا نسبتاََ کم خرچ ہو جائے گا۔

خلا میں موجود شمسی توانائی کے حصول کی پہلی سنجیدہ تجویز 1968 میں پیش کی گئی، جب انٹر نیشنل سولر انرجی سوسائٹی کے صدر پیٹر گلاسر نے تجویز پیش کی کہ خلا میں کسی بڑے شہر کی جسامت کے حامل سیٹلائٹس بھیجے جائیں جو وہاں سے توانائی کو نیچے زمین پر بھیج سکیں۔ 1979 میں، ناسا کے ماہرین نے اس تجویز پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ ایسی کسی کوشش پر کئی ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔ اس طرح اس منصوبے کو رد کر دیا گیا۔

تاہم خلائی ٹیکنالوجی میں مسلسل ترقی کی وجہ سے، ناسا نے 1995  سے 2003 کے دوران، اسپیس سولر پاور کے لئے چھوٹی جسامت کے سیٹلائٹس پر تحقیق جاری رکھی۔ اس طریقے کے حامیوں کا دعویٰ تھا کہ ٹیکنالوجی میں جدت اور لاگت میں کمی کے ذریعے، اس طریقے سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ توانائی کے مستقل اور پائیدار حصول کے لئے بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

کیا اس طریقے کو بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جا سکتا ہے؟

 کچھ ماہرین اس غیر روایتی طریقے پر بہت سے  تحفظات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ خلا سے بھیجی جانے والی توانائی کی ایسی کوئی شعاع، کسی آبادی والے حصے سے ٹکرا کر اسے نقصان پہنچا سکتی ہے۔ تاہم یہ محض ایک وہم ہے۔ اگر ماہرین اس بات کا حساب لگا سکتے ہیں کہ خلا سے کس قدر توانائی زمین پر آ سکتی ہے تو وہ اس کے خطرات کا تدارک بھی بہت آسانی کے ساتھ  کر سکتے ہیں۔ ایسا صرف ہالی وڈ کی فلموں میں ہی ہوتا ہے کہ کوئی ایسا سازشی سیٹلائٹ خلا میں بھیجا جائے جو وہاں سے تباہ کن شعاعیں بھیج کر زمین کی آبادی کونقصان پہنچا سکے۔

پاکستان کے لیے بھی کوئی خوش خبری ہے؟

پاکستانیوں کے لیے تو فی الحال ایک تازۃ خوش خبری ہے کہ وفاقی حکومت نے عوام کو "بہت بڑا ریلیف" دینے کا اعلان کیا ہے۔ بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹ منٹ ٹیکس ختم کردیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں اکثرترقی پسند افراد یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور ہم آج بھی دقیانوسی سوچ کے پیروکار ہیں۔ مذکورہ بالا خبر کے بعد اس محاورے کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دنیا بجلی بنانے کے لیے خلا تک پہنچ چکی ہے اور ہم ڈیم بنانے سے بھی قاصر ہیں۔۔۔ہمارے اہل اقتدار اور اسٹیک ہولڈرز کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں۔۔۔بجلی کی پیداوار کے لیے متبادل اور جدید ذرائع کے استعمال کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی اور اقدامات کرنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

متعلقہ عنوانات