شکوۂ غم کا اثر یاد آیا

شکوۂ غم کا اثر یاد آیا
حسن محجوب نظر یاد آیا


اشک خوناب اثر یاد آیا
لخت دل لخت جگر یاد آیا


پاؤں کا ہوش نہ سر یاد آیا
تیرا کوچہ ترا در یاد آیا


ہمدم راہ سفر یاد آیا
سایۂ برگ شجر یاد آیا


جب بھی دیکھی ہے بدلتی دنیا
ان کا انداز نظر یاد آیا


ہچکیاں پھر لگیں آنے رک کر
پھر کوئی بار دگر یاد آیا


قصر شاہی میں سکوں کیا ملتا
اپنا اجڑا ہوا گھر یاد آیا


ہم نے کھائی تھی جہاں پر ٹھوکر
پھر وہی راہ گزر یاد آیا


رخ کی سوگند ہے زلفوں کی قسم
تو مجھے شام و سحر یاد آیا


حرم و دیر کا چکر چھوڑا
ہم کو جب آپ کا در یاد آیا


کیوں مبارکؔ نہ ہو منزل آساں
ہم سفر وقت سفر یاد آیا