شمیم گل کی طرح نکہت حنا کی طرح
شمیم گل کی طرح نکہت حنا کی طرح
گزر رہے ہیں خیالوں میں وہ صبا کی طرح
غرور حسن کی صورت مری انا کی طرح
وہ بے نیاز ہیں مجھ سے مرے خدا کی طرح
نوائے درد ہے جبریل کی صدا کی طرح
دل حزیں ہے مرا وادیٔ حرا کی طرح
ہوس کا نام نہ دے جذبۂ محبت کو
مرے خلوص کو رسوا نہ کر وفا کی طرح
سکون دل کو میسر کہاں ثبات یہاں
ملی خوشی بھی وہ عمر گریز پا کی طرح
وہ ایک آہ بھی سمجھا شریک درد جسے
رکی ہے لب پہ مرے حرف مدعا کی طرح
ادائے پرسش احوال اک فریب سہی
مگر وہ شوخ ملا درد آشنا کی طرح
نفس نفس میں ہے خوشبوئے پیرہن کس کی
مشام جاں ہے مرا پھول کی قبا کی طرح
رہ وفا میں مبارکؔ یہ بے بسی میری
میں کارواں سے بچھڑ کر ہوں نقش پا کی طرح