فسردہ لاکھ ہو دل شعلہ سامانی نہیں جاتی
فسردہ لاکھ ہو دل شعلہ سامانی نہیں جاتی
سکوں میں بھی مرے دریا کی طغیانی نہیں جاتی
دم نظارہ بھی اپنی پریشانی نہیں جاتی
بکھر جاتے ہیں جلوے شکل پہچانی نہیں جاتی
دل سادہ میں او ذوق محبت بخشنے والے
ابھی تک تیری بخشش کی گل افشانی نہیں جاتی
ابھی تک پے بہ پے ناکامیوں سے دل نہیں تھکتا
ابھی تک آرزوؤں کی فراوانی نہیں جاتی
نہ جانے کس نظر سے تجھ کو کس عالم میں کب دیکھا
کہ اب تک دیدۂ حیراں کی حیرانی نہیں جاتی
صباؔ نے گدگدایا کچھ نسیم صبح نے چھیڑا
مبارکؔ پھر بھی گل کی پاک دامانی نہیں جاتی