اضطراب شوق میں الہام کا دھوکا ہوا

اضطراب شوق میں الہام کا دھوکا ہوا
دل جو دھڑکا آپ کے پیغام کا دھوکا ہوا


بات اتنی تھی کہ اس نے اک ذرا پھیری تھی آنکھ
اور مجھ کو گردش ایام کا دھوکا ہوا


مرحبا حسن تصور گیسوؤں کی چھاؤں کا
غم کی تپتی دھوپ تھی اور شام کا دھوکا ہوا


جذب ہیں نظروں میں یوں اس حسن کی رنگینیاں
آنکھ اٹھی جس پر اسی گلفام کا دھوکا ہوا


دے رہے تھے ہدیۂ تبریک وہ اغیار کو
اور مبارکؔ مجھ کو اپنے نام کا دھوکا ہوا