خزاں چمن میں یوں مستانہ وار گزری ہے

خزاں چمن میں یوں مستانہ وار گزری ہے
گماں یہ ہوتا ہے جیسے بہار گزری ہے


فضا اداس گلی مضمحل چمن پامال
بہار اب کے خزاں درکنار گزری ہے


ابھی وہی کہیں گزرے نہ ہوں ادھر ہو کر
شمیم بیز ہوا عطر بار گزری ہے


زہے تصور جاناں زہے خیال جمال
ہر ایک سانس مری مشک بار گزری ہے


ترے کرم سے ہمیشہ رہا ہے دل شاداب
مرے چمن سے ہمیشہ بہار گزری ہے


لبھا سکے گی مجھے کیا کسی کی رعنائی
مری نظر سے تمہاری بہار گزری ہے


عنایت آپ کی وجہ سکوں تو ہے لیکن
میں کیا کروں کہ طبیعت پہ بار گزری ہے


گزر رہی ہے مبارکؔ گزر ہی جائے گی
وہ زندگی جو بہت ناگوار گزری ہے