محرومیوں کا دل پر اتنا ہے کچھ اثر سا

محرومیوں کا دل پر اتنا ہے کچھ اثر سا
چاہت کے نام سے بھی لگنے لگا ہے ڈر سا


اک آہ میں ڈھلی ہے روداد زندگانی
عمر طویل کا ہے افسانہ مختصر سا


رخصت ہوا ہے دل سے ہر شوق رفتہ رفتہ
یہ شہر آرزو بھی بنتا چلا کھنڈر سا
آتا ہے دھیان ان کا یوں دشت زندگی میں
ظلمت میں شب کی جیسے ہو جلوۂ سحر سا


آسودگئ غم نے کتنا سرور بخشا
اپنے وجود سے بھی رہتا ہوں بے خبر سا


انداز پرسش‌‌ غم تھا دل فریب کتنا
وہ دشمن تمنا لگتا تھا چارہ گر سا


اشکوں نے ضبط غم کی رکھی ہے لاج ہر دم
سو بار گھر کے آیا بادل مگر نہ برسا


راہ حیات میں ہم تنہا نہیں مبارکؔ
ان کا خیال ہر دم رہتا ہے ہم سفر سا