شکن کے ساتھ جیتے ہیں تھکن کی دسترس میں ہیں

شکن کے ساتھ جیتے ہیں تھکن کی دسترس میں ہیں
حقیقت میں سبھی اپنے بدن کی دسترس میں ہیں


جمال نکہت شام و سحر بھی انجمن میں ہے
کلی بھنورے گل و بلبل چمن کی دسترس میں ہیں


مجھے پرواز کر کے آسماں میں ڈوبنا تھا اور
مجھے یہ یاد تھا ہم سب بدن کی دسترس میں ہیں


اسیران غم دنیا فنا کی جستجو میں ہیں
کہیں پر حضرت زاہد کفن کی دسترس میں ہیں


ارے اے حسن جاتا ہوں جہاں تیرے ہی چرچے ہیں
بتا کتنے دل دانا تمن کی دسترس میں ہیں