غم ضروری تھا بہت آنسو کے بننے کے لیے

غم ضروری تھا بہت آنسو کے بننے کے لیے
جبر بھی تو چاہیئے آنسو نکلنے کے لیے


اے چراغو یوں بھی ہوگا یہ ہوا تم سے ڈرے
دائمی جلنا پڑے گا شمس بننے کے لیے


جنبش چشم و لب و رخسار کی رعنائیاں
بس یہی کافی ہے ان کو یاد رکھنے کے لیے


میں بنا مٹی سے ہوں اور یہ تو ہے رنگ بشر
میں سمٹتا ہی گیا پھر سے بکھرنے کے لیے


پنچھیوں کے بیچ میں تم مت کرو ذکر بشر
پر نہیں ہے حوصلہ بنیاد اڑنے کے لیے