کبھی جو ویرانیوں میں دیکھا گھنا سا اک بھی شجر نہیں ہے

کبھی جو ویرانیوں میں دیکھا گھنا سا اک بھی شجر نہیں ہے
شجر بھی ایسے ہیں دیکھ رکھے کہ جس میں کوئی ثمر نہیں ہے


سبھی نظارے مری نظر میں غبار بن کر سمٹ گئے ہیں
تجھے نہ آیا نظر تو شاید نظر میں تیری اثر نہیں ہے


عجیب ہوگی ہوا کی صورت غضب کی ہوگی ہوا کی رنگت
تجھے بھی اس کا پتہ نہیں ہے مجھے بھی اس کی خبر نہیں ہے


وہ آسماں کا بلند منظر یہ فرش کی وسعتوں کو دیکھو
یہاں تو سب کچھ بشر بشر ہے وہاں پہ کوئی بشر نہیں ہے


یہ میری آنکھیں ہیں ان میں دیکھو سمندروں کی روانیاں ہیں
تو دیکھ سکتا انہیں مسلسل جنون تجھ میں مگر نہیں ہے


فلک کے اوپر ہے چاند روشن زمین پر آفتاب روشن
فلک کے اوپر شجر نہیں ہے زمیں کے اوپر قمر نہیں ہے


کئی اجالے ہیں دن میں رہتے کئی اجالے ہیں شب کے اندر
وہ چاند تارے یہاں نہیں ہے ادھر جو ہے وہ ادھر نہیں ہے