شوق اس کا ہم نے وصل میں بیدار کر دیا

شوق اس کا ہم نے وصل میں بیدار کر دیا
جینا پھر ہم نے اپنا ہی دشوار کر دیا


ساقی نے اپنی کیفیت خاص مجھ کو دی
مے سے نہیں اداؤں سے سرشار کر دیا


اس کی جھلک بھی پا نہ سکے چھن گیا سکوں
دل خون میرا خواہش دیدار کر دیا


فارغ کیا جہاں کی تمناؤں سے ہمیں
اس کا کرم ہے اپنا طلب گار کر دیا


خوں آرزو کو کرنے میں لوہے لگے مگر
یہ کام ہم نے آپ کا سرکار کر دیا


میں سب سمجھ گیا جو مجھے یار غار نے
انگلی لبوں پہ رکھ کے خبردار کر دیا


آخر مری نگاہ کو پڑھ ہی لیا سہیلؔ
اس نے مرے ارادے کو گلنار کر دیا