ہم سوچ رہے تھے ان کو ابھی وہ پردہ اٹھا کر آ بھی گئے

ہم سوچ رہے تھے ان کو ابھی وہ پردہ اٹھا کر آ بھی گئے
وہ پھول محبت کے ہم پر از راہ کرم برسا بھی گئے


آئے تھے علاج دل کرنے فطرت کے مطابق کام کیا
کچھ اور بڑھایا درد مرا وہ اور مجھے تڑپا بھی گئے


امید دلائی ساقی نے آئے گی گھٹا تو دیکھیں گے
قسمت نے ہمارا ساتھ دیا بے موسم بادل چھا بھی گئے


کچھ نام لیے کچھ درد کہے رخصت ہوئے لے کر میرا سکوں
افسانے سنائے مجھ کو نئے وہ آگ نئی بھڑکا بھی گئے


قربت میں بہت سے امکاں ہیں یہ بات سمجھ میں آئی ہمیں
حالات سے وہ مجبور ہوئے حالات سے دھوکا کھا بھی گئے


میں نے تو سہیلؔ اپنے دل کی موہوم تمنا ظاہر کی
رخسار پہ بجلی سی چمکی اس بات پہ وہ اٹھلا بھی گئے