ساون

اس کی پلکوں پہ گھٹا بن کے جو چھایا ساون
پھر تو میں ہنس پڑا کچھ اس طرح برسا ساون


چڑھتے سورج کے شعاعوں سے جو برسا ساون
میں نے دیکھا نہ سنا تھا کبھی ایسا ساون


ساری جاں کھنچ کے چلی آئی مری آنکھوں میں
پھول کی طرح کھلے زخم جو آیا ساون


خرمن صبر کو بجلی نے جلایا گر کر
جب کبھی دل کی تمناؤں سے الجھا ساون


برق و باراں تو ہے تصویر حیات انساں
ہنس کے رونے کا دکھاتا ہے تماشا ساون


یوں تو پہلے ہی سمیٹے تھا ہزاروں جلوے
حسن کے عکس سے کچھ اور بھی نکھرا ساون


ہر طرف پھول کھلے رنگ کے بادل برسے
اے سہیلؔ اس کی نگاہوں نے سجایا ساون