سچ

وہ کہتا ہے
وہ سچ بولتا ہے
ایسا سچ جو دل کو چیر دے
روح میں شگاف ڈال دے
وہ سچ ہی تو کہتا ہے
اس کے سچ بولنے کی عادت سے
کتنے دل فگار اور روحیں چھلنی ہوتی ہیں
اس کے سچ کا زہر
روز وہ نہیں
میں ہی پیتی ہوں
اس کے سچ کا نشانہ
میں ہی بنتی ہوں
اسے اپنی حق گوئی کا
کوئی انعام سند اعزاز ملنا چاہیے
سو میں نے اپنا چھلنی دل
کانٹوں کے ہار میں پرو کر
اسے پہنا دیا ہے
زخموں کا تاج بنا کر
اس کے سر پر سجا دیا ہے