انگلیوں سے مٹی میں صورتیں بناتے ہو

انگلیوں سے مٹی میں صورتیں بناتے ہو
اک جہاں بناتے ہو اک جہاں مٹاتے ہو


خاک سے دوبارہ کیا آسماں بنا لو گے
آسماں کو تم ایسے خاک میں ملاتے ہو


کیا ازل سے پہلے تھا کیا ابد سے آگے ہے
دیکھتے ہیں یہ پردہ کب کہاں گراتے ہو


کارگاہ ہستی میں جب فنا مقدر ہے
پھر فنا کے عالم کو کیسے بھول جاتے ہو


میری بے گھری کا بھی آج ماجرا سن لو
اونچے اونچے محلوں کی داستاں سناتے ہو


زخم جن کو دیتے ہو پتھروں کی بارش سے
پیرہن سے کیوں ان کے پھر علم بناتے ہو


منصفی کے آئیں کو تم نے ہی تو لکھا ہے
سر جو جھک نہیں سکتا اس کو کاٹ لاتے ہو