سر سے پاؤں تلک ہوا ہوں میں

سر سے پاؤں تلک ہوا ہوں میں
چلتی پھرتی ہوئی خلا ہوں میں


میرا اپنا کوئی وجود نہیں
عہد ماضی کا سلسلہ ہوں میں


میں کوئی اور ہوں کہ میں ہی ہوں
سوچ میں پڑ گئی ہوں کیا ہوں میں


رکنا چاہوں تو ایک منزل ہوں
چلنا چاہوں تو راستہ ہوں میں


کون سن پائے گا بھلا مجھ کو
اک بہت دور کی صدا ہوں میں


مٹ چکی کب کی وہ مری ہستی
ہو چکا جو وہ حادثہ ہوں میں


سوچ کر دیکھیے مری وحشت
قید ہوں بت میں اور خدا ہوں میں