صنم کے خیالوں میں یوں کھو گیا ہوں

صنم کے خیالوں میں یوں کھو گیا ہوں
کہ میں ایک پتھر کا بت ہو گیا ہوں


نہیں دھو سکا داغ جو گنگا جل بھی
اسے اپنے اشکوں سے میں دھو گیا ہوں


بجائے شجر اگتے ہیں صرف پتھر
میں زرخیز دھرتی میں کیا بو گیا ہوں


نہیں آنچ آئے گی اپنی انا پر
بلایا تھا اس نے تبھی تو گیا ہوں


کرو گے مجھے دفن تو یوں لگے گا
کہ میں ماں کی گودی میں ہی سو گیا ہوں


وضع داری کا پاس تھا جو چمن میں
میں کلیوں کا سر چومنے کو گیا ہوں


مجھے فخر ہے پنچھیؔ بزم سخن میں
گیا ہوں بہ صورت غزل گو گیا ہوں