سفر میں اب نہیں پر آبلہ پائی نہیں جاتی

سفر میں اب نہیں پر آبلہ پائی نہیں جاتی
ہماری راستوں سے یوں شناسائی نہیں جاتی


رہیں ہم محفلوں میں یا رہیں دنیا کے میلے میں
اکیلا چھوڑ کر لیکن یہ تنہائی نہیں جاتی


نگاہوں کے اشارے بھی محبت بھی علامت ہیں
سبھی باتیں زبانی ہی تو بتلائی نہیں جاتی


بڑی نازک سی ہے ڈوری یہ رشتوں کی بتاؤں کیا
الجھ اک بار گر جائے تو سلجھائی نہیں جاتی


لگائے کوئی بھی کتنے یہاں چہروں پہ چہرے ہی
حقیقت آئنے سے پھر بھی جھٹلائی نہیں جاتی


نہ جانے خواب ہیں کتنے تمنائیں کھلونوں سی
مگر یہ زندگی ان سے تو بہلائی نہیں جاتی


کہانی زندگی کی یوں تو دل کش ہے مگر واحدؔ
کوئی اک بار جو پڑھ لے تو دہرائی نہیں جاتی