درد دل میں نہ آنکھوں میں پانی رہے
درد دل میں نہ آنکھوں میں پانی رہے
اپنے چہرے پہ بس شادمانی رہے
گفتگو میں گروں نہ میں معیار سے
میرا لحاظ یوں ہی خاندانی رہے
چھت پہ آئے پرندے کی خاطر صدا
ایک مٹی کے برتن میں پانی رہے
مجھ کو رکھا گیا گھر کے کونے میں یوں
چیز جیسے کوئی بھی پرانی رہے
رابطہ یوں رہے آخری سانس تک
جب بھی بچھڑیں تو آنکھوں میں پانی رہے
زخم آئے تجھے تو مجھے درد ہو
یوں لہو میں ہماری روانی رہے
منزلیں نہ ملیں تو کوئی غم نہیں
حوصلہ تو مگر آسمانی رہے