ایک مشکل کتاب جیسی تھی

ایک مشکل کتاب جیسی تھی
زندگی اک عذاب جیسی تھی


ہم کو تو خار ہی ملے لیکن
یہ سنا تھا گلاب جیسی تھی


گھونٹ در گھونٹ پی تو یہ جانا
ایک کڑوی شراب جیسی تھی


آئی حصے میں جو یتیموں کے
وہ تو خانہ خراب جیسی تھی


عمر بھر ہم سہیجتے تھے جسے
ایک خستہ کتاب جیسی تھی


کوئی تعبیر ہی نہ ہو جس کی
اک ادھورے سے خواب جیسی تھی


ہے شکستہ سی آج یہ لیکن
بچپنے میں نواب جیسی تھی


تم نے دیکھی نہیں جوانی میں
زندگی آفتاب جیسی تھی