ساتھ تیرا اگر نہیں ہوتا

ساتھ تیرا اگر نہیں ہوتا
ہم سے اتنا سفر نہیں ہوتا


دھوپ ہے راہ میں اصولوں کی
اس میں کوئی شجر نہیں ہوتا


لوگ کیا کیا خرید لیتے ہیں
بس ہمیں سے گزر نہیں ہوتا


سامنا زندگی سے کرنے کا
ہر کسی میں ہنر نہیں ہوتا


اب تو عادی سے ہو گئے ہیں ہم
حادثوں کا اثر نہیں ہوتا


دل یوں لگتے قریب ہیں لیکن
راستہ مختصر نہیں ہوتا


گر وفا ہی ملی جو ہوتی تو
آدمی در بدر نہیں ہوتا