سچ کی حدت سے مات بہہ جائے

سچ کی حدت سے مات بہہ جائے
جھوٹ تڑپے جہات بہہ جائے


میں نچوڑوں جو اپنی آنکھوں کو
یار یہ کائنات بہہ جائے


عشق جب ہو سن بلوغت پر
ڈر سے ہی سومنات بہہ جائے


میرے اتنا قریب آ جاؤ
ایک دوجے میں ذات بہہ جائے


ہاتھ رکھنا یوں میرے دل پر تم
دل کا سارا ثبات بہہ جائے


دیکھ کر چاند سا حسیں چہرہ
نوچ لے خود کو رات بہہ جائے


زخم ہوں چشم داشت کے اذفرؔ
خامشی سے حیات بہہ جائے