روٹھ کر اس نے جتایا بھی نہیں

روٹھ کر اس نے جتایا بھی نہیں
کیوں ہے وہ برہم بتایا بھی نہیں


چل دیا وہ بزم ماتم چھوڑ کر
حال دل اپنا سنایا بھی نہیں


کیوں خزاں نے گھیر رکھی ہے بہار
پنچھی کوئی چہچہایا بھی نہیں


ان سے ملتے ہی میں پتھر ہو گیا
ہاتھ پکڑا اور دبایا بھی نہیں


اک عجب دوراہے پر آ پہنچا ہوں
وہ نہیں اپنا پرایا بھی نہیں


میری حالت خشک دریا جیسی تھی
میں شجر تھا لڑکھڑایا بھی نہیں


یہ محبت میں حیا کی بات ہے
پاس سویا تھا جگایا بھی نہیں