جب بھی گلزار سے لہو نکلا
جب بھی گلزار سے لہو نکلا
اس کی تکرار سے لہو نکلا
دیکھتے ہی مرے جنازے کو
چشم اغیار سے لہو نکلا
جب لگا مجھ پہ عشق کا بہتان
میرے کردار سے لہو نکلا
مدتوں بعد ڈایری کھولی
سبھی اشعار سے لہو نکلا
بوڑھا ہوتے ہی اڑ گئے پنچھی
اور اشجار سے لہو نکلا
مرنے پر اس شریر لڑکی کے
یار اخبار سے لہو نکلا
دیکھ کر تیری یاد میں روتا
آج دیوار سے لہو نکلا
الفتیں دیکھ کر علیؔ ان کی
میرے انکار سے لہو نکلا