اب تک جو دور ہے وہ ریاضت سفر میں ہے
اب تک جو دور ہے وہ ریاضت سفر میں ہے
منزل قریب تر ہے مگر اک بھنور میں ہے
دکھ درد عشق آس کا پرتو ہوں میں صنم
آنسو خوشی جفا کا اثر مجھ شجر میں ہے
یہ جو پنپ رہی ہے محبت دلوں میں یار
یہ جسم کی طلب ہے جو ہر اک نگر میں ہے
اس قدر بڑھ گئی ہے ہوس مرد میں کہ اب
عزت کی فکر ہے تو طوائف کہ ڈر میں ہے
یہ جھوٹ بولنا بھی نفاست کا کام ہے
اور یہ ہنر فقط مرے مولا بشر میں ہے
بچپن میں جس ضعیفہ کو دیکھا تھا چاند میں
وہ اب بھی چرخہ کات رہی ہے قمر میں ہے
ہر دور کے لٹیرے نے لوٹا ہے یہ وطن
پر اس کو کیا خبر وہ ہماری خبر میں ہے