سبھی کچھ صاف ہے مبہم نہیں ہے
سبھی کچھ صاف ہے مبہم نہیں ہے
عجب عالم کہیں ماتم نہیں ہے
جفاؤں کا میاں موسم نہیں ہے
اٹھے آواز وہ ویلکم نہیں ہے
صداقت کا یہاں پرچم نہیں ہے
جھکا ہے سر مگر یہ خم نہیں ہے
جو دانستہ جھکائے سر کھڑے ہو
وہ بیگم ہے کوئی رستم نہیں ہے
عزیزوں سے بھری محفل میں یاروں
بہت سے لوگ ہیں ہمدم نہیں ہے
مسیحائی نہیں وہ پارسائی
کہیں عیسیٰ کہیں مریم نہیں ہے
خطاؤں پر ندامت اور احسنؔ
ہمیں ہم ہیں مگر آدم نہیں ہے