کیا خبر تھی راہزن ہی راہبر ہو جائے گا

کیا خبر تھی راہزن ہی راہبر ہو جائے گا
چارہ گر حصے کا میرے کم نظر ہو جائے گا


قافلہ غم کا شریک رہ گزر ہو جائے گا
درد دل کا دھیرے دھیرے بے اثر ہو جائے گا


گفتگو سے آشنائی ہی نہیں دیکھو جسے
محفلوں میں وہ سخنور پر اثر ہو جائے گا


خوب سے تھے خوب تر کی راہ میں کوشاں مگر
ہم سفر کا ساتھ یوں تو مختصر ہو جائے گا


ہو بہ ہو ویسی رہے جان جہاں ہر ایک شے
تم چلے جاؤ گے احسنؔ منتشر ہو جائے گا