سب کو خود سے بچا رہا ہوں میں

سب کو خود سے بچا رہا ہوں میں
اپنا نقشہ مٹا رہا ہوں میں


دل کا تیرے ہوا میں جان جاں
پرزہ پرزہ اڑا رہا ہوں میں


یا سجاتا ہوں تیری ڈولی یا
اپنی میت سجا رہا ہوں میں


تاکہ پھر شعر کا دھماکہ ہو
روز بارود کھا رہا ہوں میں


دل کے میں نے بڑھائے دام بہت
جان سستی بنا رہا ہوں میں


ڈھونگ ہے یہ مری نئی الفت
اب بھی وعدہ نبھا رہا ہوں میں


بات منحوس اک سنانے کو
پہلے اچھی سنا رہا ہوں میں


عید دیوالی ہو کہ بیساکھی
جشن اردو منا رہا ہوں میں


تنگ آیا ہٹا کے کانٹوں کو
اب تو رستا ہٹا رہا ہوں میں


اب تو دیتے نہیں غلامی بھی
دور تھا اک خدا رہا ہوں میں


آگ لگنے کی چاہ سے ہی تو
شمع گھر میں جلا رہا ہوں میں


اب ترا زہر پھیلے باہر بھی
اب تو مغلوبؔ جا رہا ہوں میں