مجھ کو اس رستے پر چلنا ہوتا ہے
مجھ کو اس رستے پر چلنا ہوتا ہے
جس پہ اندھیرا خوب اندھیرا ہوتا ہے
ساتھ رہیں گے کہہ کر حوصلہ دیتے ہیں
آخر ان کو بھی گھر جانا ہوتا ہے
جب آتا ہے ہوش ہمیں کیا کرنا ہے
ہاتھ میں عمر کا آدھا حصہ ہوتا ہے
بیگم شوہر اجڑے اجڑے لگتے ہیں
آخر کس نے کس کو لوٹا ہوتا ہے
دل پونا سے ممبئی تک بھی جائے تو
رستے میں دلی کلکتہ ہوتا ہے
ورزش کرتا اچھا کھاتا پیتا ہے
وہ بھی اک دن مرنے والا ہوتا ہے
مرنے کو ہوں راضی میرے مرنے پر
دیکھوں کس کا الو سیدھا ہوتا ہے
جھوٹ سے اپنی جان بچا پاتا لیکن
دیوانہ آخر دیوانہ ہوتا ہے
اول اول کا سیدھا سادہ رشتہ
آخر آخر میں پیچیدہ ہوتا ہے
ایک خدا ہے ایک خدا بس ایک خدا
یعنی وہ بھی تنہا تنہا ہوتا ہے