اے ناظر بے خبر
اے ناظر بے خبر
اب تم نا ہی آؤ تو اچھا ہے
اب یہاں پھر شروع سے شروع کون کرے
لمحہ لمحہ شب غم کا یوں عدو کون کرے
ہونٹ سوکھے ہیں انہیں پھر سے کماں کون کرے
دید کو چشمہ و شمشیر زباں کون کرے
شام کو پھر سے چراغاں کروں ہمت ہی نہیں
قصے وہ پھر سے سناؤں تجھے قوت ہی نہیں
جو دریا بہہ گیا وہ پھر نہ لوٹ کر آتا
ہوں اداکار اداکاری نہیں کر پاتا
تو مجھے اب کے کسی اور موڑ پر ملنا
نیا ہو زخم بہے پھر کوئی خوں کا جھرنا
یہ زندگی ہے تماشہ کیا تجھے علم نہیں
جو لمحہ ٹل گیا سو ٹل گیا یہ فلم نہیں
اے ناظر بے خبر
اب تم نا ہی آؤ تو اچھا ہے