نیند کو نیند آئے جاتی ہے

نیند کو نیند آئے جاتی ہے
رات مجھ کو جگائے جاتی ہے


ایک لڑکی جو مر گئی کب کی
وہ ابھی تک بلائے جاتی ہے


ہر طرح ریت ہے جو صحرا کی
نام بارش بتائے جاتی ہے


آئی تو تھی وہ گل کھلانے کو
اور کیا گل کھلائے جاتی ہے


کمرہ اندر سے بند کر کے وہ
قید جگ کو کرائے جاتی ہے


دن امیدوں کو چھین لیتا ہے
رات سپنے دکھائے جاتی ہے


میں حقیقت بتائے جاتا ہوں
وہ کہانی سنائے جاتی ہے


میں بھی اب گھر میں کم ہی جاتا ہوں
ماں بھی عادت بنائے جاتی ہے