جنوں کی راہ میں پہلے در جانانہ آتا ہے

جنوں کی راہ میں پہلے در جانانہ آتا ہے
فراغت ہے پھر اس کے بعد ہی ویرانہ آتا ہے


یہ دل کی بات ہے اور بات یہ دل ہی سمجھتا ہے
ہمارے پاس اکثر چل کے خود مے خانہ آتا ہے


کرو ہر گام پر سجدے محبت کا تقاضہ ہے
بہت نزدیک ہے اور یار کا کاشانہ آتا ہے


ہوئی ہے کارگر ترکیب میرے دل کی خواہش کی
مجھے بیمار سن کر کوئی بیتابانہ آتا ہے


لگاتی ہے گلے سے شمع اس کو میں سمجھتا ہوں
فنا ہو کر بقا کے رنگ میں پروانہ آتا ہے


شفق سے مے برستی ہے عجب گل رنگ ہے عالم
نظر میں میری سورج صورت پیمانہ آتا ہے


سخن ہے معتبر تیرا سہیلؔ اس نے کہا مجھ سے
قلم سے تیرے اکثر شعر استادانہ آتا ہے