سامنے ہو کر بھی کب سب پر عیاں ہوتے ہیں لوگ

سامنے ہو کر بھی کب سب پر عیاں ہوتے ہیں لوگ
جو نظر آتے ہیں ویسے ہی کہاں ہوتے ہیں لوگ


چھاپ سے ماحول کی بچنا بہت دشوار ہے
اپنے گرد و پیش ہی کے ترجماں ہوتے ہیں لوگ


پستیوں میں بھی نظر آتے ہیں عظمت کے نشاں
خاک پر رہتے ہوئے بھی آسماں ہوتے ہیں لوگ


قافلہ سالار جب ہوتے ہیں اف وہ ساعتیں
ہائے وہ لمحہ کہ جب بے کارواں ہوتے ہیں لوگ


ظلم پر باندھیں کمر تو الامان و الحفیظ
مثل چنگیز اک بلائے بے اماں ہوتے ہیں لوگ


مہرباں ہو جائیں تو رنج و الم کی دھوپ میں
پیڑ کی صورت گھنیرا سائباں ہوتے ہیں لوگ


نقش پا تک بھی نہیں ملتے کہیں ان کے نعیمؔ
دیکھتے ہی دیکھتے یوں بے نشاں ہوتے ہیں لوگ