ہر دم کی کشمکش سے نکل راستہ بدل

ہر دم کی کشمکش سے نکل راستہ بدل
اب اور ان کے ساتھ نہ چل راستہ بدل


یہ خلفشار ذہن یہ خدشے یہ حجتیں
ان سب کا بس ہے ایک ہی حل راستہ بدل


نخوت پرست لوگوں کو چھوڑ ان کے حال پر
وقت ان کے خود نکالے گا بل راستہ بدل


سوچوں میں جن کی تازہ ہوا کا گزر نہیں
کر دیں گے تیرا ذہن بھی شل راستہ بدل


یہ تیری زندگی ہے گزار اپنے ڈھنگ سے
سانچے میں دوسروں کے نہ ڈھل راستہ بدل


تو جن کا ہم قدم ہے یہ بے مہر لوگ ہیں
ہوں گے ترے یہ آج نہ کل راستہ بدل


نقصان دے گی تجھ کو بہت گو مگو نعیمؔ
تاخیر کر نہ ایک بھی پل راستہ بدل