کتنے برسے نگر نگر پتھر

کتنے برسے نگر نگر پتھر
حوصلے کر نہ پائے سر پتھر


جو نشاں زد ہوئے ہیں اپنے لیے
وہ تو سب آئیں گے ادھر پتھر


بات کہہ دی تھی اک خدا لگتی
میری سمت آئے کس قدر پتھر


دیکھ مہنگی پڑے گی من مانی
باندھنے ہوں گے پیٹ پر پتھر


کس نے کیچڑ میں سنگ مارا ہے
پڑ گئے کس کی فہم پر پتھر


سوچ کے کر کسی پہ سنگ زنی
آ بھی سکتے ہیں لوٹ کر پتھر


سب پہ حسرت کی اک نظر کرکے
ہو گئی ایک چشم تر پتھر


عدل ان کا نعیمؔ کیا کہنا
پھول اپنی طرف ادھر پتھر