برتے کچھ امتیاز تو انسان کم سے کم
برتے کچھ امتیاز تو انسان کم سے کم
ہو اپنے دوستوں کی تو پہچان کم سے کم
اہل غرض کسی کے ہوئے ہیں جو ہوں مرے
اتنا تو سوچ اے دل نادان کم سے کم
ہوگا یہی بہت سے بہت جاں سے جائیں گے
رہ جائے گی وفا کی مگر آن کم سے کم
چلئے معاملہ یہ کسی سمت تو ہوا
کم تو ہوا یہ روز کا خلجان کم سے کم
ایسا نہیں کہ مایۂ احساس بھی نہ ہو
اتنے نہیں ہیں بے سر و سامان کم سے کم
نا ممکنات میں سے تو شاید نہ ہو نعیمؔ
آمد بہار کی نہیں آسان کم سے کم