روس یوکرائن تنازعے میں پھنسا جرمنی: نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن

               اس وقت سردی کے موسم میں عالمی منظر نامے پر کون سا محاذ سب سےگرم ہے، یہ بات مجھے کسی کو بتانے کی ضرورت  نہیں۔     بین الاقوامی  میڈیا   اس ضمنمیں خوب کام کر رہا ہے۔ یوکرائن اور روس کا تنازع اب خاصی سنجیدہ شکل اختیار کر گیا ہے۔    دونوں اطراف سے فوجیں ہائی الرٹ ہیں اور گیند پوری طرح صدر پیوٹن کی کورٹ میں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ  یوکرائن پر حملے کا حکم دیتے ہیں یا ان کی کیلکولیشن کوئی اور فیصلہ کرنے کا کہتی ہے۔    بہرحال  عالمی شطرنج پر سیاست اور سفارتکاری دیکھنے کا بہت مزہ آ رہا ہے۔   ادھر سے میڈیا نے ایک چٹھی کا  ڈھول پیٹا تو اُدھر سے اڑتے خط کی خبر آئی۔ ہاں ڈر بھی  لگ رہا ہے کہ کہیں چٹھی و خط اڑنے اڑانے سے بات   جنگی جہاز و میزائل پر نہ آ نکلے۔ خام خواہ کئی انسان مارے جائیں گے۔

               یہ ڈر تو ہے ہی لیکن    اس وقت موجودہ بحران کے شکنجے  میں ایک گردن پھنسی نظر آ رہی ہے۔  پوری عالمی بساط پر اتھل پتھل بتا رہی ہے  کہ موٹی گردن ہے۔ ہم سی چیونٹی کی گردن ہوتی تو اب تک کچلی جا چکی ہوتی۔  یہ گردن ہے جرمنی  کی۔  آپ سوچ رہیں ہوں گے بھلا وہ کیسے؟ تو آئیے بتاتا ہوں۔

               یورپ اس وقت اپنی  گیس کی ضروریات کا تقریباً چالیس فیصد روس سے حاصل کرتا ہے۔ لیکن جب یہ بات جرمنی پر آتی ہے تو یہ عدد پچاس فیصد سے تجاوز کر جاتا ہے۔  جرمنی نیٹو کا ممبر ہے اور امریکی اتحادی ہے۔ لیکن  اگر اس اتحاد  میں ہونے کا حق ادا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو بہت زور سے پیٹ پر ٹانگ پڑتی ہے۔ کیونکہ میاں  روس ایک منٹ نہیں لگائیں گے جرمنی کی طرف آتی پائپ لائن کی گیس خالی کرنےمیں، اور پھر ہوگا کیا، اس کا ٹریلر میاں روس جرمنی سمیت یورپ کے دیگر ممالک کو دکھا ہی رہے ہیں۔   روس نے گیس سپلائی کم کر رکھی ہے۔  اس کی قیمتیں بھی چار چار سو گناہ چڑھا رکھی ہیں۔ جرمنی اپنے عوام کے گھر روس سے آتی گیس سے گرم کرتا ہے۔    ابھی تو یہ گیس کم ہوئی ہے لیکن اگر بند ہو گئی تو جرمنی کے گھروں کے ساتھ ساتھ کئی صنعتیں بھی ٹھنڈی پڑ جائیں گی۔

               یہ آگے آگ اور پیچھے کھائی جیسا منظر ہے جس میں جرمنی آج کل بڑے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے۔ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے اور  اس وقت اس کے اتحادیوں کو اس کی ضرورت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جرمنی  ان کی طرح روس کے خلاف جارحانہ موقف اختیار کرے۔ فوری یوکرائن کی مدد کو اپنی فوجیں بھیجے جیسے انہوں نے بھیج رکھی ہیں۔  اب جب اتحادی اس قسم کی توقعات لگا کر  بیٹھے ہیں تو اس پر جرمنی کے امیر البحر کا بیان بہت  دلچسپ آیا ہے۔  وہ کہتے ہیں صدر پیوٹن عزت کے حق دار ہیں۔ ظاہر ہے انہیں یہ کہنے کے بعد استعفیٰ دینا پڑ گیا ہے لیکن باقی جرمنی بھی کوئی اپنے اتحادیوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملا رہا۔  ظاہر ہے ایسا تو نہیں ہو سکتا  نا ں کہ وہ اتحادیوں کے پیچھے پوری قوم کا مفاد ہی جھونک دے۔ ایسا کرنے کے لیے بندے کو صدر مشرف ہونا پڑتا ہے۔ بھئی ایسے ہی جملہ معترضہ آ گیا تھا، برا مت مانیے گا۔   

               ہاں تو میں بات کر رہا تھا جرمنی کے اقدامات کی۔ایک اور دلچسپ خبر یہ ہے کہ  جرمنی  نے اپنے اتحادیوں کے بے حد اصرار اور دباؤ پر صرف  اتنا کہا ہے  کہ وہ جنگ کی صورت میں فوجیوں کی طبی امداد کے لیے اپنے ملک سے ہیلمٹ بھیج دے گا۔ لیکن ساتھ ساتھ اہم بالٹک ملک اسوڈونیا کو بھی کہا ہے کہ خبردار تم نے جرمنی ساختہ ہتھیار روس کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی تو۔

               ویسے اس قسم کی گستاخیوں پر نیٹو کو جرمنی کو اپنے اتحاد سے نکال باہر کرنا چاہیے۔ لیکن کیسے کرے؟ جرمنی یورپ کی بڑی معیشت ہے۔ یورپی یونین میں کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو تو جرمنی آگے آگے ہوتا ہے۔  یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ گھر میں ابا جان کسی سے لڑائی لے بیٹھے ہوں اور بڑا بھائی کہہ رہا ہو،  چھوڑو یار کیا  رکھا ہے لڑائی جھگڑے میں۔  اس پر ابا جان سمیت سارے گھر والے تلملا تو سکتے ہیں، لعنت ملامت بھی کر سکتے ہیں لیکن بڑے بھائی کو گھر سے نہیں نکال سکتے۔  کیونکہ باقی  امور میں اس کی ضرورت ہے۔۔ویسے بھی جرمنی کی ابھی ابھی عہدہ چھوڑنے والی چانسلر اینجلا مرکل کو یورپ  میں بڑی بی کا درجہ حاصل تھا۔ بعض تو  یورپ کی اماں جان تک انہیں قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ وہی اماں جان ہیں جو روس سے مزید گیس لینے کے لیے نورڈ 2 سٹریم لائن گیس پائپ لائن پر مذاکرات کرتی پھر رہی تھیں اور جرمنی  کا روس پر مزید انحصار بڑھا رہی تھیں۔  ابھی تو انحصار پچاس فیصد تک ہے، اگر بڑھ جاتا تو  اس قسم کی صورتحال میں کیا مشکلات ہوتیں اس کا اندازہ آپ خود کر لیں۔

               اس سب معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ اگر روس اپنی گیس روکتا ہے تو اس کے بھی تو پیسے مرتے ہیں۔ ظاہر ہے ابھی روس جرمنی سمیت یورپ کو گیس اللہ واسطے تو نہیں دے رہا ناں۔ اس کے بدلے کروڑوں اربوں ڈالر وصول کرتا ہے۔    اگر گیس بند کرتا ہے تو سارے ڈالر بھی تو اس کے جاتے ہیں۔ لیکن اس ضمن میں مَیں آپ کو بتاؤں کہ  میاں روس یورپ سے ہٹ کر اپنا ایک اور گاہک  ڈھونڈ چکے ہیں اور   وہ  گاہک ہے چین۔ یورپ اگر اپنی سپلائی یورپ کو بند کرتا ہے تو روس  چپ کر کے یہ سپلائی چین کو دینا شروع کر دے گا جو پہلے ہی اس سے چالیس فیصد تک لے رہا ہے۔ روس کے پاس اپنا متبادل گاہک تو ہے لیکن  جرمنی سمیت یورپ کے پاس دوسرا سپلائر اس وقت موجود نہیں۔  پورے یورپ میں ایک ناروے سے گیس نکلتی ہے، لیکن وہ کہتا ہے جتنی میں دے رہا ہوں اس سے زیادہ نہیں دے سکتا۔   ہاں امریکہ کچھ نہ کچھ کر سکتا ہے جو اس وقت ایل این جی کا سب سے بڑا سپلائر ہے دنیا کا۔  اور اس نے کچھ نہ کچھ کرنا شروع بھی کر دیا ہے۔  ابھی تک  یورپ کو امریکی سپلائی میں اضافے کی خبر تو سننے کو نہیں  ملی لیکن ہاں صدر بائیڈن نے قطری بادشاہ کو آواز دی ہے۔ قطر دنیا کا دوسرا بڑا  ایل این جی کا سپلائیر ہے ۔  آج  جب میں پیر والے دن یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو قطری حکمران شیخ تمیم الثانی  واشگٹن پہنچے ہوئے ہیں۔ اب اس تھیلے سے بلی باہر آ لے تو آپ کے لیے  قطر پر دلچسپ مضمون لے کر آؤں گا۔ تب تک کے  لیے چائے کا ایک کپ لیں، بی بی سی، الجزیرہ یا کوئی بھی اور عالمی میڈیا چینل چلائیں اور اس شطرنج کے کھیل سے لطف اندوز ہوں۔ یاد رکھیں تائیوان پر معاملہ بھی ٹھنڈا نہیں ہے، کچھ خبرادھر کی بھی لے لیجیے گا۔

متعلقہ عنوانات