روس کا یوکرائنی علاقے ضم کرنا: کیا اب جنگ براہ راست نیٹو اور روس کے درمیان ہونے جا رہی ہے؟

"میں آج کیو کے عہدے داران اور ان کے اصل مغربی آقاؤں کو سنا دینا چاہتا ہوں تاکہ وہ یاد رکھیں کہ ڈونسک، لوہانسک، زپرزویا اور خرسن کے لوگ ہمیشہ کے لیے ہمارے شہری بننے جا رہے ہیں۔"

یہ اقتباس تیس ستمبر کی صدر پوٹن کی تقریر سے ہے۔ آج صدر پیوٹن نے چار یوکرائنی علاقوں ڈونسک، لوہانسک، زپرسویا اور خرسن کو روس میں ضم کر دیا۔ انضمام کی تقریب  کریملن کے سینٹ جورج ہال میں ہوئی جہاں درج شدہ علاقوں کے سربراہان اور  رہنماؤں کے ساتھ صدر پیوٹن نے انضمام کی دستاویزات دستخط کیں۔ ان چاروں علاقوں کو 2014 میں کرائیمیا کی طرح استصواب رائے کروانے کے بعد  صدر پیوٹن  نے روس میں ضم کیا ہے۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ 2014 کی طرح اس بار بھی مغربی اقوام نے اس استصواب کو نہیں مانا اور  اس استصواب  کے عوام کی رائے کا مظہر ہونے سے انکار کیا ہے۔

یوکرائنی علاقوں کے  انضمام کو کیوں خطرے کی گھنٹی سمجھا جا رہا ہے؟

یوکرائن کے چاروں علاقوں  کے انضمام میں مہلک بات یہ ہے کہ روس یوکرائن جنگ ایک قدم آگے بڑھ گئی ہے جہاں روس اور نیٹو کے مابین براہ راست تصادم کا خطرہ ہے۔ یہ دنیا کے امن کے لیے  کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، مجھے آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں۔  شاید آپ سوچیں کہ جنگ تو پہلے بھی کسی نہ کسی حالت میں روس اور نیٹو ممالک کے درمیان چل رہی تھی، اگر براہ راست تب نہیں ہوئی تو اب کیوں ہو سکتی ہے؟ تو بھئی آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یوکرائن کے صدر الیگزنڈر زیلنسکی نے اب سے کچھ دیر پہلے نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست کر دی ہے۔ دوسری طرف اب یہ چاروں علاقے جہاں جنگ  جاری ہے، اب تکنیکی اعتبار سے روس کے ہیں۔  پہلے ان میں سے دو ڈونسک اور لوہانسک روس کے کاغذوں میں آزاد خودمختار جبکہ نیٹو کے کاغذوں میں یوکرائن کے تھےاور دو علاقے زپرزویا اور خرسن دونوں کے کاغذوں میں یوکرائن کے تھے۔ روس ان علاقوں میں خصوصی آپریشن کر رہا تھا، جن میں یوکرائنی افواج ان کا مقابلہ کر رہی تھیں۔ لیکن اب یہ علاقے روس کے مطابق اس کے ہیں، جن پر یوکرائنی حملے کو وہ جارحیت تصور کرے گا۔  اس کا عندیہ صدر پیوٹن دے بھی رہے ہیں۔ یوکرائن اگر نیٹو رکنیت لے جاتا ہے تو ظاہر ہے روس سے چاروں علاقے واپس لینے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ روس ظاہر ہے، اسے اپنے شہریوں پر حملہ تصور کرتے ہوئے جواب دے گا اور یوں نیٹو براہ راست ساری جنگ کا حصے دار بن سکتا ہے۔ کیونکہ نیٹو اتحاد کے چارٹر کا آرٹیکل پانچ یہ کہتا ہے کہ اتحاد میں موجود کسی ایک ملک پر حملہ ہر ایک پر حملہ تصور ہوگا اور تمام ممالک اس  حملے کے شکار ملک کے دفاع کے پابند ہونگے۔ یوں قوی امکان موجود ہے کہ روس اور نیٹو براہ راست تصادم کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔

کیا انضمام کے بعد نیٹو اور روس کے براہ راست تصادم کے امکانات ٹل سکتے ہیں؟

یہ ٹھیک ہے کہ  انضمام کو مغربی اقوام خشمگیں نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں۔ اب سے کچھ دیر پہلے جی 7 نے بھی اس اقدام کی مذمت کی ہے، لیکن یوکرائن کیا نیٹو کی رکنیت لے جائے گا، اس میں بھی کئی ایک رکاوٹیں موجود ہیں۔  نیٹو اتحاد میں کسی بھی نئے رکن کی شمولیت کے لیے ضروری ہے کہ تمام رکن ممالک راضی ہوں۔ آپ کو کچھ عرصہ پہلے فن لینڈ اور سوئیڈن کی رکنیت سے متعلق ترکیہ کا پھڈا یاد ہی ہوگا۔ کیسے ترکیہ نے دونوں ممالک کی نیٹو میں شمولیت روکے رکھی تھی۔ ان دونوں ممالک کے کیس میں تو اکیلا ترکیہ راضی نہیں تھا، لیکن یوکرائن کے کیس میں تو اور بھی کئی ممالک اس کو رکن بنانے کے لیے راضی نہیں۔ وجہ صاف ہے کہ آخر کیوں پرائے پھڈے میں کودا جائے؟ ظاہر ہے اگر یوکرائن نیٹو کا رکن نہیں بنتا تو نیٹو اور روس تصادم ٹل سکتا ہے۔

اس صورت کے علاوہ تو کوئی ٹھوس صورت نظر نہیں آتی اس تصادم کو ٹالنے کے لیے۔ باقی یہ تو صاف ہے کہ اس وقت روس یوکرائن کے درمیان صرف جنگ نہیں چل رہی، بلکہ اس جنگ کی آڑ میں دنیا کی نئی ترتیب یا دوسرے الفاظ میں نئے ورلڈ آرڈر کی تیاری ہے۔ اس ورلڈ آرڈر میں امریکہ عالمی طاقت تو نظر آتا ہے لیکن سپر پاور نظر نہیں آتا۔ امریکہ موجودہ ورلڈ آرڈر اور اس میں اپنے سپر پاور کے درجے کو بچانے کے لے کس حد تک جائے گا، روس یوکرائن جنگ کا فیصلہ  بہت حد تک اس بات پر انحصار کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ عملاً انسانیت کا مستقبل بھی اسی بات پر انحصار کرتا ہے۔

متعلقہ عنوانات